بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1446ھ 16 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

کرسی پر نماز پڑھنا


سوال

اگرکوئی شخص بغیر کسی سہارےکے  پیدل چل پھر سکتا ہواور روزمرہ کے کام  بھی ٹھیک کرتاہو،  لیکن مسجد میں نماز کرسی پر بیٹھ کر پڑھتا ہواور کہتا ہو کہ وزن کےسبب تکلیف ہوتی ہے ،کیا ایسے  شخص کے لیے  کرسی استعمال کرناجائز ہے؟

نیز کرسی والا صف  کےدرمیان کرسی رکھ  کرنماز  ادا کر سکتاہے؟

جواب

جو شخص بیماری کی وجہ سے کھڑے ہونے پر قادر نہیں، یا کھڑے ہونے پر قادر ہے، لیکن زمین پر بیٹھ کر سجدہ کرنے پر قادر نہیں ہے یا قیام و سجود کے ساتھ نماز پڑھنے کی صورت میں بیماری میں اضافہ یا شفا ہونے میں تاخیر یا ناقابلِ برداشت درد کا غالب گمان ہو تو ان صورتوں میں کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے، البتہ کسی قابلِ برداشت معمولی درد یا کسی موہوم تکلیف کی وجہ سے فرض نماز میں قیام کو ترک کردینا اور کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنا جائز نہیں۔

اسی طرح جو شخص فرض نماز میں مکمل قیام پر تو قادر نہیں، لیکن کچھ دیر کھڑا ہو سکتا ہے اور سجدہ بھی زمین پر کرسکتا ہے تو ایسے شخص کے لیے اُتنی دیر کھڑا ہونا فرض ہے، اگر چہ کسی چیز کا سہارا لے کر کھڑا ہونا پڑے، اس کے بعد بقیہ نماز زمین پر بیٹھ کر پڑھنا چاہیے۔

لہذاصورتِ مسئولہ میں محض وزن کی معمولی  تکلیف کی وجہ سے جوقابل برداشت ہےفرض نماز میں قیام کو ترک کر دینا اور بیٹھ کر نماز پڑھنا جائز نہیں ،  لہذا درج بالاتفصیل کے مطابق اگرکسی نمازی کےلیےکرسی پر نمازپڑھنا جائز نہ ہو  وہ ہرگز کرسی پر نماز نہ پڑھے۔

نیز کرسی پر بیٹھ کرنماز پڑھنے والاصف کےکنارےبیٹھ  جائے تو اچھا ہے ، اوراگر صف مکمل نہ ہو تو درمیان  میں بھی کرسی پر نمازجائز ہے۔

 ‌‌الدر المختار میں ہے:

" (من تعذر عليه القيام) أي كله (لمرض) حقيقي وحده أن يلحقه بالقيام ضرر به يفتى (قبلها أو فيها) أي الفريضة (أو) حكمي بأن (خاف زيادته أو بطء برئه بقيامه أو دوران رأسه أو وجد لقيامه ألما شديدا) أو كان لو صلى قائما سلس بوله أو تعذر عليه الصوم كما مر (صلى قاعدا) ولو مستندا إلى وسادة أو إنسان فإنه يلزمه ذلك على المختار (كيف شاء) على المذهب لأن المرض أسقط عنه الأركان فالهيئات أولى. وقال زفر: كالمتشهد، قيل وبه يفتى (بركوع وسجود وإن قدر على بعض القيام) ولو متكئا على عصا أو حائط (قام) لزوما بقدر ما يقدر ولو قدر آية أو تكبيرة على المذهب لأن البعض معتبر بالكل (وإن تعذرا) ليس تعذرهما شرطا بل تعذر السجود كاف (لا القيام أومأ) بالهمز (قاعدا) وهو أفضل من الإيماء قائما لقربه من الأرض."

(کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المریض، ج:2 ص: 98،97،96،95، ط: سعید)

 فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"فإن لحقه نوع مشقة لم يجز ترك ذلك القيام".

(کتاب الصلاۃ‌، الباب الرابع عشر في صلاة المريض، ج:1، ص:136، ط:دار الفکر بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144609101605

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں