بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1446ھ 26 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

کرایہ پر دی گئی دکانوں میں ہبہ تام ہوگا یانہیں؟ نیز مکان ہبہ کرنے کے بعد اس میں رہائش پذیر ہونے کی صورت میں ہبہ تام سمجھا جائے گا یانہیں؟


سوال

ایک خاتون اپنے ماموں کے پاس بچپن سے رہی حتی کہ ماموں نے اپنی بھانجی کی ولدیت میں اپنے نام کوذکر کرتے ہوئے تقریباًتمام کاغذات شناختی کارڈ وغیرہ میں اپنے نام کا اندراج کروایا، ماموں کے انتقال کے بعد اس خاتون  کاکہنا ہےکہ کاغذی کاروائی میں ولدیت میں ( فلاں یعنی ماموں )میرے والدہے، اور والد میرے نام اپنی جائیداد کرکے گئے ہیں، رشتہ داروں میں سے کوئی بھی اس بات کا گواہ نہیں ہےکہ خاتون کے ماموں نےمکمل جائیداد اس کے نام یااس کی ملکیت میں دے دی ہے، قرآن وحدیث کی روشنی میں ہماری را ہ نمائی کی جائے کہ اس خاتون کا یہ دعوی درست ہےیانہیں؟

 تنقیح:ماموں کی ملکیت میں ایک گھر اور دکانیں تھیں ، ماموں گھر میں انتقال تک رہائش پذیر تھے، دکانیں کرایہ پر دی ہوئی تھیں، کرایہ داری  کا معاہدہ بھانجی کے نام منتقل ہوا تھا  ، اور بھانجی  نے ماموں کی زندگی میں ایک دو دفعہ کرایہ بھی وصول کیا  تھا۔

جواب

واضح رہے کاغذات شناختی کارڈ وغیرہ میں   کسی کو والد ،بیٹی وغیرہ لکھنے اورظاہر کرنے سے حقیقی والد  ،بیٹی  ،  نہیں بنتی حقیقی والد وہی ہے جس سے ولادت(پیدائشی ) رشتہ ہو   ، اور کسی مرد وعورت کا اپنی نسبت حقیقی باپ کے بجائے غیر باپ کی طرف کرنا سخت جرم اور ناجائز ہے، قرآن کریم میں اللہ تعالی نے با پ کے نام سے پکارنے  کاحکم دیاہے، احادیث مبارکہ میں اپنی نسبت غیر با پ کی طرف کرنے والوں کے لیے سخت مذمت اور وعید آئی ہے

مذکورہ تفصیل کی رو سےصورتِ مسئولہ میں مذکورہ     ماموں  کا بھانجی  کے نام  کے ساتھ کاغذات میں اپنی  ولدیت لگانے سے ماموں اپنی بھانجی کا والد نہیں بنا، بلکہ  ماموں  بھانجی کا رشتہ  وہی سابقہ رشتہ ہی رہے گا ،بھانجی پر لازم ہے کہ اپنے سرکاری کاغذات میں ولدیت کے خانہ میں اپنے حقیقی والدکے نام کا اندراج کروائے ، اور اگر یہ ممکن نہ ہو تواسے برقرار رکھنے کی گنجائش ہے۔

نیز کسی شخص کا  کوئی بھی چیز محض کسی کے نام کرنے سے اس کی ملکیت میں نہیں آتی ،جب تک کہ وہ چیز مالکانہ  مکمل قبضہ و تصرف کے ساتھ اس کے قبضہ میں نہ دے دی جائے،اور ہر چیز کا قبضہ اسی چیز کے حساب سے ہوتا ہے،   مکان کا قبضہ   تام ہونے کا طریقہ یہ ہے کہ  واہب ( مالک) اپنا سامان اس سے نکال دے اور خود بھی کچھ  وقت کے لیے اس  سے نکل جائے،   اگر مکان میں موجود سامان بھی مکان کے ساتھ ہبہ کردیا جائے  تو پھر اس مکان اور  موہوب لہ (جس کو ہبہ کیا جارہا ہے)  میں تخلیہ کردینا کافی ہے، اور  تخلیہ کی صورت یہ ہے کہ  واہب کچھ وقت کے لیے اس مکان سے نکل جائے تو موہوب لہ ( جس کو ہبہ کیا جارہا ہے) کا قبضہ تام ہوجائے گا،  پھر ہبہ کرنے والا اگر موہوب لہ( جس کو ہبہ کیا جارہا ہے) کی اجازت سے اس مکان میں رہائش اختیار کرے تو یہ ہبہ کے تام ہونے سے مانع نہیں ہوگا۔ لیکن اگر ہبہ کرنے والا خود اس مکان میں موجود ہو  یا اس کا سامان موجود ہو اور وہ صرف مکان کسی کو گفٹ کردے تو  یہ گفٹ مکمل نہیں ہوتا اور مکان  اصل مالک (واہب)  ہی کی ملکیت میں رہتا ہے،اسی طرح دکان  کا ہبہ(گفٹ)  اگر مذکورہ طریقہ کےمطابق ہو توہبہ تام  ہوگا ورنہ دکان اصل مالک ہی کا رہے گا ۔

مذکورہ تفصیل کی رو سے زیر نظر مسئلہ میں  ماموں اپنا مذکورہ مکان اپنی بھانجی کے نام کردیا تھا، اور یہ نام کرنا اگرچہ  بطور ہبہ  کے بھی تھا،لیکن  بوقت ہبہ ماموں خود بھی  اسی گھر میں رہائش پذیرتھے، بلکہ انتقال تک اسی گھر میں سکونت پذیررہے، لہذ ا بھانجی کے حق میں  گھر کا ہبہ تام نہیں ہے، اور یہ بدستور ماموں ہی کی ملکیت میں رہا ، انتقال کے بعد اس کے تمام شرعی ورثاء میں ان کے شرعی حصص کے مطابق تقسیم ہوگا۔

باقی دکانوں کا حکم یہ ہےکہ   یہ دکانیں بوقت ہبہ اگرچہ کرایہ پرتھیں ، لیکن ہبہ کے بعد ماموں نے مذکورہ دکانوں کی کرایہ داری کا معاملہ اپنی بھانجی  کے نام متقل کیا تھا، بعد ازاں ماموں کی زندگی میں ایک دو مرتبہ کرایہ بھی وصول کیا تھا، توایسی صورت میں بھانجی کے حق میں ان دکانوں کا ہبہ درست ہوا ، اور بھانجی ان دکانوں کی مالک بن گئی تھی ، لہذا یہ دکانیں ماموں کی میراث میں تقسیم نہیں ہوں گی، البتہ اس کے باقی جائیداد مرحوم کے تمام  شرعی ورثاء میں تقسیم  ہوگی ۔

قرآن کریم میں ہے:

وَمَا جَعَلَ أَدۡعِيَآءَكُمۡ أَبۡنَآءَكُمۡۚ ذَٰلِكُمۡ قَوۡلُكُم بِأَفۡوَٰهِكُمۡۖ وَٱللَّهُ يَقُولُ ٱلۡحَقَّ وَهُوَ يَهۡدِي ٱلسَّبِيلَ(4)  ٱدۡعُوهُمۡ لِأٓبَآئِهِمۡ هُوَ أَقۡسَطُ عِندَ ٱللَّهِۚ فَإِن لَّمۡ تَعۡلَمُوٓاْ ءَابَآءَهُمۡ  فَإِخۡوَٰنُكُمۡ فِي ٱلدِّينِ وَمَوَٰلِيكُمۡۚ وَلَيۡسَ عَلَيۡكُمۡ جُنَاحٞ فِيمَآ أَخۡطَأۡتُم بِهِۦ وَلَٰكِن مَّا تَعَمَّدَتۡ قُلُوبُكُمۡۚ وَكَانَ ٱللَّهُ غَفُورٗا رَّحِيمًا (5)   ( سورة الأحزاب الآية: 5،4)

ترجمہ: اور تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا (سچ مچ کا) بیٹا نہیں بنادیا یہ صرف تمہارے منہ سے کہنے کی بات ہے اور اللہ حق بات فرماتا ہے اور وہی سیدھا راستہ بتلاتا ہے ، تم ان کو ان کے باپوں کی طرف منسوب کیا کرو یہ اللہ کے نزدیک راستی کی بات ہے اور اگر تم ان کے باپوں کو نہ جانتے ہو تو وہ تمہارے دین کے بھائی ہیں اور تمہارے دوست ہیں اور تم کو اس میں جو بھول چوک ہوجاوے تو اس سے تم پر کچھ گناہ نہ ہوگا، لیکن ہاں دل سے ارادہ کر کے کرو (تو اس پر مؤاخذہ ہوگا)، اور اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے۔ (از بیان القرآن) 

درر الحكام شرح مجلة الأحكام میں ہے:

" أما هبة المشغول فلا تجوز أي لا تجوز هبة المال المشغول بمتاع الواهب وملكه (البهجة) ؛ لأن الموهوب إذا كان مشغولا بمتاع الواهب كان كالمشاع وفي حكمه. مثلا لو وهب أحد داره المشغولة بأمتعته وسلمه إياها فلا تجوز. إلا إذا سلمها بعد تخليتها من الأمتعة المذكورة. فحينئذ تصح الهبة كما تصح لو وهبه الأمتعة أيضا وسلمه الكل معا (انظر المادة 24) (الطحطاوي)۔۔۔۔لو ‌سلم ‌الواهب الدار وهو موجود فيها أو أهله فلا يصح هذا التسليم (الهندية عن الخانية)."

(الكتاب السابع الهبة، الباب الأول بيان المسائل المتعلقة بعقد الهبة، المبحث الأول في حق الشروط الباقية المتعلقة بالموهوب، ج:2، ص:427، ط:رشیدیه)

البحرالرائق میں ہے:

"‌وفي ‌الموهوب أن يكون مقبوضا غير مشاع متميزا غير مشغول على ما سيأتي تفصيله وركنها هو الإيجاب والقبول وحكمها ثبوت الملك للموهوب له غير لازم حتى يصح الرجوع والفسخ."

 

(کتاب الهبة، ج:7، ص:284، ط:دارالکتاب العلمیة)

وفیه أيضا: 

"‌ثم ‌تصح ‌الوصية ‌للأجنبي ‌بالثلث من غير إجازة الوارث ولا تجوز بما زاد على الثلث لما روي «عن سعد بن أبي وقاص أنه قال جاءني رسول الله صلى الله عليه وسلم يعودني من وجع اشتد بي فقلت: يا رسول الله قد بلغ بي من الوجع ما ترى، وأنا ذو مال ولا يرثني إلا ابنة لي أفأتصدق بثلثي مالي قال لا قال قلت: فالشطر يا رسول الله قال لا قال قلت: فالثلث قال فالثلث، والثلث كثير إنك أن تذر ورثتك أغنياء خير لك من أن تذرهم عالة يتكففون الناس»

(کتاب الوصایا، ج:8، ص:461، ط:دار الكتاب الإسلامي)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144602100259

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں