میری بھانجی کا نام ”لائبہ“ ہے، اب وہ سولہ سال کی ہوچکی ہے اور ہمیں اب پتہ چلا کہ یہ نام رکھنا درست نہیں ہے۔
تو کیا اب یہ نام ہم بدل سکتے ہیں یا نہیں؟
اور اگر بدلیں تو اس پر کوئی صدقہ وغیرہ کچھ لازم آئےگایانہیں؟
واضح رہے بچوں اوربچیوں کے لیے کسی اچھے نام کا انتخاب کرنا (یعنی کوئی مناسب معنی والا نام رکھنا) والد کی ذمہ داری ہے،اگر کسی وجہ سے بچے کا ایسا نام رکھ دیا گیاہو، جو نامناسب ہو تو اسے بدل دینا چاہیے؛ نیز نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت شریفہ یہ تھی کہ آپﷺ برے ناموں کو بدل کر اچھا نام رکھا کرتےتھے۔
نیز’’لائبہ‘‘ یہ عربی زبان کا لفظ ہے ،’’لاب‘‘ سے مشتق ہے، جس کے معنی:(1) پیاسا ہونا۔( 2) پیا سے کا پانی کے ارد گرد گھومنا اور اس تک نہ پہنچ پانا۔لہذا ’’لائبہ‘‘ کا معنی ہو ا: پیاسی لڑکی، یا وہ پیاسی لڑکی جو پانی کے ارد گرد گھومتی ہو اور پانی تک نہ پہنچ سکے۔
لہذاصورت مسئولہ میں آپ مذکورہ نام کی جگہ درست اوراچھے معنیٰ والانام رکھیں ،اورپھر اس میں بہتریہ ہے کہ ازواجِ مطہرات یا دیگر صحابیات مکرمات رضی اللہ عنہن کے ناموں میں سے کسی کانام رکھیں، اچھے ناموں کے انتخاب کے لیے ہماری جامعہ کی ویب سائٹ پر موجود اسلامی ناموں والے سیکشن سے استفادہ کیا جاسکتاہے،لنک مندرجہ ذیل ہے:اسلامی نام۔
اورجہاں تک صدقہ وغیرہ کی بات ہے توشرعاًنام تبدیل کرنےسے صدقہ وغیرہ کچھ لازم نہیں آتا۔
ترمذی شریف میں ہے:
”عن عائشة: أن النبي صلی الله علیه وسلم كان یغیر الإسم القبیح.“
ترجمہ:”حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسےروایت ہے فرماتی ہے کہ آپ ﷺنامناسب معنی والےناموں کوتبدیل فرماتےتھے۔“
(ابواب الأداب، باب ماجاء فی تغییر الأسماء، ج:2، ص:11، ط:قديمى كتب خانه)
المعجم الوسيط (2/ 844):
"(لاب): الرجل أو البعير لوباً ولواباً ولوباناً: عطش واستدار حول الماء وهو عطشان لا يصل إليه فهو لائب، (ج) لؤوب ولوب ولوائب، يقال: إبل لوب ولوائب، وهي لائبة، والجمع لوائب".
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603102798
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن