کیا کسی پیر سے استخارہ کروانا جائز ہے ؟ اور اگر وہ کہے کہ اس لڑکی سے آپ کے لیے نکاح کرنا مناسب نہیں ہے ، استخارہ ان کےحق میں صحیح نہیں ہےتوکیاکرناچاہیے؟
استخارہ کسی سےکروانےکےبجائےخودکوکرناچاہیے، حضورﷺ نےہرمسلمان کواپنےمعاملےمیں استخارہ کرنےکی ترغیب دی ہیں، البتہ اگرکسی نیک بااعتماد آدمی سےاستخارہ کروایا جائےتواس کی بھی گنجائش ہےاورپھراسی کےمطابق عمل بھی کرناچاہیے، یہی اپنےحق میں بہترہے، لیکن یہ بھی واضح رہےکہ اگراستخارہ میں آنےوالےجواب پرعمل نہ کیاجائےتواس میں کوئی گناہ نہیں ہوگا۔
سنن ترمذی میں ہے:
"عن جابر بن عبد الله، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعلمنا الاستخارة في الأمور كلها كما يعلمنا السورة من القرآن، يقول: " إذا هم أحدكم بالأمر فليركع ركعتين من غير الفريضة، ثم ليقل: اللهم إني أستخيرك بعلمك، وأستقدرك بقدرتك، وأسألك من فضلك العظيم، فإنك تقدر ولا أقدر، وتعلم ولا أعلم، وأنت علام الغيوب، اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر خير لي في ديني ومعيشتي وعاقبة أمري - أو قال: في عاجل أمري وآجله - فيسره لي، ثم بارك لي فيه، وإن كنت تعلم أن هذا الأمر شر لي في ديني ومعيشتي وعاقبة أمري - أو قال: في عاجل أمري وآجله - فاصرفه عني، واصرفني عنه، واقدر لي الخير حيث كان، ثم أرضني به۔"
(أبواب الوتر، باب ما جاء في صلاة الاستخارة، 345/2، رقم:480، ط:شركة مكتبة ومطبعة مصطفى)
بہشتی زیور میں ہے:
"اگرایک دن میں کچھ معلوم نہ ہواوردل کاخلجان اورتردد نہ جاوےتودوسرےدن پھرایساہی کرے، اسی طرح سات دن تک کرےان شاء اللہ ضروراس کام کی اچھائی یابرائی معلوم ہوجاوےگی۔"
(استخارہ کی نماز کابیان، ص:107، ط:اسلامک بک سروس)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144512100777
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن