منہ بولے بیٹے کا کیا حکم ہے؟ نیز اگر بیٹا اپنے بھائی کو دیں گے تو شرعی احکام کیا ہوں گے اور ولدیت کس کی رہے گی؟کیا یہ شریعت کے مزاج کے مطابق ہے؟
واضح رہے کہ کسی بچے کو اپنا منہ بولا بیٹا یا بیٹی بنانا اور اس کی پرورش کرنا جائز ہے، لیکن اس میں شرط ہے کہ زیرِ پرورش بچے کو اپنے حقیقی والد کی طرف نسبت کرکے بلایا جائے، پرورش کرنے والے کا نام ولدیت کے خانے میں لکھنا جائز نہیں،اسی طرح منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹے کی طرح وارث بھی نہیں بن سکتا۔
اور اگر گود لینے والا یا والی اس بچے کے لیے نا محرم ہو تو بلوغت کے بعد پردے کا اہتمام کیا جائے، محض گود لینے سے محرمیت قائم نہیں ہوتی، البتہ اگر گود لیے گئے بچے کو اس عورت کی بہن یا بھابھی دودھ پلادے تو یہ عورت اس کی رضاعی خالہ یا پھوپھی بن جائے گی، اس صورت میں گود لینے والی سے بچے کے پردے کا حکم نہیں ہوگا، اسی طرح اگر بچی گود لی ہو تو شوہر کی بہن، بھابھی اس کو مدتِ رضاعت میں دودھ پلادے، عام طور پر لوگ مذکورہ احکام کی رعایت نہیں رکھتے،اس لیے دوسرے کو اپنا بچہ دینے سے احتراز کرنا چاہیے۔
مسندِ دارمی میں ہے:
"عن سعد، وأبي بكرة، أنهما حدثا، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: (من ادعى إلى غير أبيه وهو يعلم أنه غير أبيه، فالجنة عليه حرام)".
(باب: في الذي ينتمي إلى غير مواليه،ج3،ص1645،دار المغني السعودیہ)
تفسیر مظہری میں ہے:
"فلا يثبت بالتبني شىء من أحكام النبوة من الإرث وحرمة النكاح وغير ذلك- وفى الآية رد لما كانت العرب تقول من أن اللبيب الأريب له قلبان والزوجة المظاهر منها تبين من زوجها وتحرم عليه كالأم ودعى الرجل ابنه يرثه ويحرم بالتبني ما يحرم بالنسب."
(الأحزاب، ج7، ص284، ط: الرشدية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144609102447
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن