ایک قوم میں مہر کے بارے میں یہ رواج ہے کہ وہ مہر پانچ لاکھ روپے مقرر کرتے ہیں، اگر کوئی اس سے زیادہ مہر مقرر کرنا چاہے تو قوم والے اس سے بائیکاٹ کرتے ہیں اور اس کے ساتھ خوشی اور غم میں شریک نہیں ہوتے اور نہ ہی اس کے جنازے میں شرکت کرتے ہیں اور اس گھر کا کچھ حصہ بھی اس کو بتلا کر گرا دیتے ہیں ۔ کیا کسی خاص قوم کے لیے مہر کی مخصوص مقدار پر پابندی کرنا شرعاً کیسا ہے؟
واضح رہے کہ شریعت میں مہر کی زیادہ سے زیادہ کوئی مقدار متعین نہیں ہے، اور کم از کم مقدار دس درہم ہے ، بلکہ مہر کی ادائیگی کا تعلق شوہر کی استطاعت پر موقوف ہے، لہذا اگر کوئی شخص زیادہ مہر کی استطاعت رکھتا ہے اور وہ ادا کرنا چاہتا ہے تو شرعاً ایسا کرنے کی اسے اجازت ہے ، کسی بھی شخص یا قوم کا ان سے مہر کی زیادتی کی وجہ سے قطع تعلق کرنا ان کی خوشی اور غم میں شریک نہ ہونا شرعاً درست نہیں، ایسے عمل سے احتراز کرنا ضروری ہے۔
مسلم شریف میں ہے:
"عن أبي سلمة بن عبد الرحمن، أنه قال: سألت عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم: كم كان صداق رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قالت: «كان صداقه لأزواجه ثنتي عشرة أوقية ونشاً»، قالت: «أتدري ما النش؟» قال: قلت: لا، قالت: «نصف أوقية، فتلك خمسمائة درهم، فهذا صداق رسول الله صلى الله عليه وسلم لأزواجه."
(کتاب النکاح ،باب الصداق، ج: 4 ،ص: 144، رقم الحدیث: 1426، ط: دارالطباعة العامرۃ)
مرقاۃالمفاتیح میں ہے:
"(وعن عائشة) رضي الله عنها (قالت: قال النبي صلى الله عليه وسلم الله عليه وسلم: إن أعظم النكاح بركة ) أي: أفراده وأنواعه (أيسره) أي: أقله أو أسهله، (مؤنة) أي: من المهر والنفقة للدلالة على القناعة التي هي كنز لا ينفد ولا يفنى".
( كتاب النكاح، ج: 5، ص: 2049 ، ط: دار الفكر، بيروت)
بدائع الصنائع میں ہے:
"والمهر يجب بمقابلة إحداث الملك؛ ولأنه عقد معاوضة وهو معاوضة البضع بالمهر فيقتضي وجوب العوض كالبيع، سواء كان المهر مفروضافي العقد أو لم يكن عندنا."
(كتاب النكاح، فصل بيان ما يجب به المهر، ج: 2، ص: 287، ط: دار الكتب العلمية)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"أقل المهر عشرة دراهم مضروبة أو غير مضروبة حتى يجوز وزن عشرة تبرا، وإن كانت قيمته أقل، كذا في التبيين، وغير الدراهم يقوم مقامها باعتبار القيمة وقت العقد في ظاهر الرواية".
( كتاب النكاح، الباب السابع، الفصل الأول، ج: 1، ص: 302، ط. دار الفکر)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144604101027
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن