بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی پر جادو کروانے اور پھر اس سے توبہ کرنے کا حکم


سوال

 میں نے جادوگروں سے کسی بندے پر تعویذ کروائے مگر وہ کام ہونے سے پہلے مُجھے اللّٰہ تعالٰی کا خوف آ گیا اور میں اللّٰہ كے عذاب سے ڈر گیا ،  کیا میں نے کفر اور شرک کیا ہے؟ اور میں اللّٰہ سے رجوع کرنا چاہتا ہوں اپنی زِندگی میں جو صغیرہ کبیرہ گناہ کیےہیں،  اُن سے توبہ کرنا چاہتا ہوں اور اس کے لیے مجھے کیا کرنا ہو گا کہ اللّٰہ پاک مجھے معاف کر دیں  میں بہت زیادہ خوف میں ہوں اور اپنے رب سے گناہوں کی بخششِ چاہتا ہوں میں اللّٰہ کا پسندیدہ بندہ بننا چاہتا ہوں اور جو مجھ سے جو گناہ تمام زندگی میں ہوئے جو مجھے یاد نہیں اُن کے بارے میں کیا کروں کہ میری معافی ہو جائے ؟ میں نے شیطان کے بہکاوے میں آ کر جادو کروائے،  چند دن پہلے مگر کوئی نقصان نہیں ہوا،   کیا میں تجدیدِ ایمان کر کے مسلمان ہو جاؤں گا؟

جواب

جادو کرنا اور کروانا یا اس میں تعاون کرنا سب ناجائز ،  حرام اور سخت گناہ ہے، اگر جا دو  میں کفریہ الفاظ ہوں یا کفریہ عقیدہ ہو،یا اس کو حلال سمجھتا ہو  تو یہ کفر ہے، اس کی سزا ”قتل“ ہے،اگر اس میں کفریہ  عقائد وکلمات نہ ہوں اور جادو  کرنے یا کرانے والا اس کو حلال بھی نہیں سمجھتا ہو ،لیکن جادو سے لوگوں کو نقصان پہنچاتا ہو  تو یہ ”فاسق“ ہے،اس صورت میں بھی زمین میں فتنہ وفساد کو ختم کرنے کے لیے اس کی سزا قتل ہے، لہذا    اگر کوئی شخص کسی  پر جادو کروانے کا اعتراف کرتا ہے،  یا شرعی گواہان کے ذریعے یہ جرم  ثابت ہوجاتا ہے، تو اسلامی حکومت میں حاکمِ وقت یا اس کا نائب  اس  کو سخت سے سخت تعزیری سزا دے سکتا ہے،   فتنہ اور فساد کو روکنے کے لیے  اس کو تعزیراً قتل کرنا بھی جائز ہے۔

صورتِ مسئولہ میں اگرسائل نے  جادو کو حلال سمجھ کر کسی پر کروایا ہے  یا اس جادو میں کفریہ الفاظ شامل ہو ں تو سائل پر لازم ہےکہ تجدیدِ ایمان کرلےاور شادی شدہ ہونے کی صورت میں تجدیدِ نکاح بھی کر لے،  اگر جادو کوحلال نہیں سمجھتا تھا اور نہ ہی اس میں کوئی کفریہ الفاظ استعمال کیے گئے تھے تو یہ اگر چہ کفر نہیں لیکن  پھر بھی سائل پر لازم ہے کہ اس سے توبہ کرے اور اللہ تعالٰی سے  معافی مانگے اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا عزم کرے، البتہ احتیاط کا تقاضا یہ  ہے کہ تجدیدِ ایمان کرلے تا کہ کسی بھی قسم کا شبہ نہ رہ جائے۔

اگر کسی شخص سے کوئی صغیرہ گناہ  ہوجائے توصغیرہ گناہ نیک اعمال سے بھی معاف ہوجاتے ہیں،  البتہ اگر کسی سے کبیرہ گناہ  ہو جائے تو صدق دل  ،پختہ  عزم اور ندامت كے ساتھ کی جانے والی توبہ  سے کبیرہ گناہ بھی معاف ہو جاتے ہیں ، اورآخرت میں  اس پر مواخذہ نہیں ہو گا ، حدیث شریف میں آتا ہے کہ    " ’گناہ سے (صدقِ دل سے) توبہ کرنے والا اس شخص کی طرح (پاک و صاف ہوجاتا) ہے جس نے کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو   "       اور توبہ کر نے والا  اللہ تعالیٰ کا  پیارا اور محبوب بن جاتا ہے، البتہ توبہ کی کچھ شرائط ہیں:  ایک یہ کہ اس گناہ سے مکمل کنارہ کشی اختیار کی جائے ، دوم : یہ کہ دل سے خوب ندامت ہو    ،سوم : یہ آئندہ نہ کر نے کا عزم ہو۔  اور اس گناہ کے نتیجے میں کسی کا نقصان ہوا ہو تو  حتی الامکان اس کی تلافی کرے، یا اصحابِ حقوق سے اس کی معافی کی سبیل کرے؛ لہذا  سائل اگر ان شرائط  کا اہتمام کرتے ہوئے اللہ سے توبہ کرے تو اللہ تعالی  بڑے بڑے  گناہوں کو  بھی معاف فرمادیتے ہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"مطلب في الساحر والزنديق (قوله: والكافر بسبب اعتقاد السحر) في الفتح: السحر حرام بلا خلاف بين أهل العلم، واعتقاد إباحته كفر. وعن أصحابنا ومالك وأحمد يكفر الساحر بتعلمه وفعله سواء اعتقد الحرمة أو لا ويقتل وفيه حديث مرفوع «حد الساحر ضربة بالسيف» يعني القتل وعند الشافعي لا يقتل ولا يكفر إلا إذا اعتقد إباحته."

(کتاب الجھاد، باب المرتد، ج:4، ص:240، ط:دار الفکر)

اللہ  تبارک وتعالی کا ارشاد ہے :

"إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ." ﴿هود: ١١٤﴾

ترجمہ:"بے شک نیکیاں برائیوں کو مٹادیتی ہیں۔"

اسی طرح ایک اور جگہ  ارشاد فرمایا ہے:

"اِنَّ اللَّهَ یُحِبُّ التَّوَّابِینَ وَ یُحِبُّ المُتَطَهِّرِینَ"(البقرة:222)

ترجمہ: "یقینًا اللہ تعالیٰ محبت رکھتے ہیں توبہ کرنے والوں سے اور محبت رکھتے ہیں پاک صاف رہنے والوں سے۔"(بیان القرآن)

سننِ ابن ماجہ میں ہے:

"عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عن أبيه، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: "‌التَّائِبُ مِنْ الذَّنْبِ كَمَنْ لَا ذَنْبَ لَهُ."

ترجمہ:"گناہ سے توبہ کرنے والا شخص ایسا ہوجاتا ہے جیسا کہ اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو۔"

(أبواب الزھد، باب ذکر التوبه، ج:5، ص:320، ط:دارالرسالة العالمیة)

الموسوعۃالفقہيۃ الكويتيۃ  ميں ہے:

"ذكر أكثر الفقهاء والمفسرين أن للتوبة أربعة شروط: الإقلاع عن المعصية حالا، والندم على فعلها في الماضي، والعزم عزما جازما أن لا يعود إلى مثلها أبدا. وإن كانت المعصية تتعلق بحق آدمي، فيشترط فيها رد المظالم إلى أهلها أو تحصيل البراءة منهم."

(التوبة، أركان وشروط التوبة، ج:14، ص: 120، 121، ط:دار السلاسل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511102307

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں