بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

کفریہ الفاظ پر مشتمل گانا سننا / تجھ میں اپنا رب دکھتا ہے کہنا


سوال

ایک گانا ہے جس میں محبوب اپنی محبوبہ کی تعریف کرتے ہوئے اپنا سب کچھ اپنی محبوبہ کو ہی مان لیتا ہے، حتیٰ کہ اپنی جنت بھی اپنی محبوبہ کو ہی مان لیتا ہےاور پھر اس کے بعد کچھ الفاظ بولتا ہے جو کہ مندرجہ ذیل ہیں: "تجھ میں رب دکھتا ہے" تو میرا سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کے الفاظ سننے سے انسان کافر ہو جاتا ہے اور اگر یہ الفاظ بولے جائیں تو کیا بندہ کافر ہو جائے گا جب کہ یہ نیت نہ ہو ۔ براہ کرم وضاحت فرما دیں۔

جواب

واضح رہے کہ گانا گانا اور اس کو سننا دونوں  حرام ہیں ،ایک حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے،جس کا مفہوم یہ ہے کہ  گانا نفاق کو اس طرح پیدا کرتا ہے جس طرح پانی کھیتی کو،چہ جائیکہ ایسے گانے گانا یا سننا جو شرکیہ یا موہم شرک ہوں ،لہذا اس گناہ سے توبہ کرنی چاہئے۔

صورت مسئولہ میں سوال میں ذکر کردہ شعر میں اگر چہ تاویل ہوسکتی ہے ،اس لیے کہ رب عربی   زبان کا لفظ ہے ،اس کے معنی مالک اور صاحب کے بھی   آتے ہیں ،اور  اس میں اس معنی  کا بھی احتمال ہے  کہ تجھ میں رب کی صنعت اور کاریگری دکھتی ہے، اس لیے اس کے گانے یا سننے سے کوئی کافر نہیں ہوگا ۔

باقی  الفاظ کا ظاہر  چونکہ  موہم ِ کفر ہے ،اس لئے  کہ رب  جب بھی مطلق بولا جاتا ہے تو اس کا اطلاق باری تعالی پر ہی ہوتا ہے،مزید یہ کہ  اس میں مذہبی اصطلاحات کو عشق بازی کے لیے استعمال کیا گیا ہے،لہذا اس قسم کے اشعار پڑھنے   سے  اجتناب کرنا لازم ہے۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

" و عن جابر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الغناء ينبت النفاق في القلب كما ينبت الماء الزرع» . رواه البيهقي في «شعب الإيمان."

(کتاب الاداب ،باب البیان و الشعر الفصل الثالث جلد۳ ص: ۱۳۵۵  ط: المکتب الاسلامی ،بیروت) 

فتاوی شامی میں ہے :

"قلت: وفي البزازية: استماع صوت الملاهي كضرب قصب ونحوه حرام لقوله - عليه الصلاة والسلام - «استماع الملاهي معصية والجلوس عليها فسق والتلذذ بها كفر» أي بالنعمة فصرف الجوارح إلى غير ما خلق لأجله كفر بالنعمة لا شكر فالواجب كل الواجب أن يجتنب كي لا يسمع

(قوله فسق) أي خروج عن الطاعة ولا يخفى أن في الجلوس عليها استماعا لها والاستماع معصية فهما معصيتان".

(کتاب الحظر والاباحۃ،ج:6،ص:349،سعید)

البحر الرائق شرح کنز الدقائق میں ہے :

"وفي الخلاصة وغيرها إذا كان في المسألة وجوه توجب التكفير ووجه واحد يمنع التكفير فعلى المفتي أن يميل إلى الوجه الذي يمنع التكفير تحسينا للظن بالمسلم زاد في البزازية إلا إذا صرح بإرادة موجب الكفر فلا ينفعه التأويل حينئذ وفي التتارخانية لا يكفر بالمحتمل لأن الكفر نهاية في العقوبة فيستدعي نهاية في الجناية ومع الاحتمال لا نهاية اهـ.

والحاصل أن من تكلم بكلمة الكفر هازلا أو لاعبا كفر عند الكل ولا اعتبار باعتقاده كما صرح به قاضي خان في فتاويه ومن تكلم بها مخطئا أو مكرها لا يكفر عند الكل ومن تكلم بها عالما عامدا كفر عند الكل ومن تكلم بها اختيارا جاهلا بأنها كفر ففيه اختلاف والذي تحرر أنه لا يفتى بتكفير مسلم أمكن حمل كلامه على محمل حسن أو كان في كفره اختلاف ولو رواية ضعيفة فعلى هذا فأكثر ألفاظ التكفير المذكورة لا يفتى بالتكفير بها ولقد ألزمت نفسي أن لا أفتي بشيء منها."

(کتاب السیر،باب احکام المرتدین،ج5،ص134،المکتب الاسلامی)

کفایت المفتی میں  ایک سوال کے جواب میں ہے:

’’شعراء کے کلام میں اس قسم کی باتیں بکثرت ہوتی ہیں اور یہ مبالغہ میں ہمیشہ حدود و اعتدال سے گزرجاتے ہیں ۔۔پیغمبر اسرار کہنے سے کفر عائد نہیں کیا جائے گاکیونکہ اسرار سے اسرار الہیہ مراد نہیں ہیں بلکہ اسرار کلام یا اسرار عشق و محبت یا اسرار فصاحت  وبلاغت مراد ہوسکتے ہیں ۔اسی طرح تہذیب کا پروردگار یعنی رب التہذیب با الاضافۃ ایسا ہے جیسے رب الغنم  رب المال وغیرہ۔ساقی کوثر بدوش ان تمام الفاظ میں زیادہ سخت ہےمگر شاعر کے لئےوَٱلشُّعَرَآءُ يَتَّبِعُهُمُ ٱلۡغَاوُۥنَ  أَلَمۡ تَرَ أَنَّهُمۡ فِي كُلِّ وَادٖ يَهِيمُونَ وَأَنَّهُمۡ يَقُولُونَ مَا لَا يَفۡعَلُونَ کے تمغے رکھنے کے بعد یہ باتیں مستبعد نہیں۔‘‘

(ج:1،ص:370 ،ط:دار الاشاعت کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144505101062

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں