بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

کل رقم قرض دینے کی صورت میں قربانی کا حکم


سوال

اپنی کل رقم کسی کو قرض دینے والے پر قربانی کا حکم؟

جواب

جس شخص نے کسی دوسرے  کو بطورِ قرض رقم دی ہو تو اس رقم کا مالک رقم  دینے والا ہے، لہذا اگر مذکورہ رقم تنہایادوسرے اموال کے ساتھ مل کر نصاب(یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کی موجودہ قیمت ) کو پہنچتی ہو اور قرض کی واپسی کی امید ہو تو قرض دینے والے پر قربانی لازم ہے،اور اگر قرض دینے والے کے پاس  قرض دینے کے بعد  قربانی کے ایام میں    نہ ضروتِ اصلیہ سے زائد نقد رقم    ہو اورنہ ضرورت سے زائد ایسا سامان  ہو جسے بیچ کر  قربانی کی جاسکے  اور نہ  مقروض ایام قربانی میں قرض کی اتنی رقم واپس کرنے پر راضی ہو جس سے قربانی کی جاسکے توایسی صورت میں  قربانی واجب نہ ہوگی۔

الفتاوى البزازيةمیں ہے:

"له ديون مؤجلة وليس عنده ما يشتريها به لا تلزم .

له على مقر مفلس دين لا تلزم ما لم يصل إليه .

له دين حال على مقر مليء وليس عنده ما يشتريها به لا يلزمه الاستقراض ولا قيمة الأضحية إذا وصل الدين إليه ولكن يلزمه أن يسأل منه ثمن الأضحيةإذاغلب على ظنه أنه يعطيه."

(کتاب الأضحیة، الثانی في نصابها، ج:2، ص:406، ط:دارالکتب العلمیة)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائعمیں  ہے:

"‌وكذا ‌لو ‌كان ‌له ‌مال غائب لا يصل إليه في أيام النحر لأنه فقير وقت غيبة المال حتى تحل له الصدقة بخلاف الزكاة فإنها تجب عليه؛ لأن جميع العمر وقت الزكاة وهذه قربة موقتة فيعتبر الغنى في وقتها ولا يشترط أن يكون غنيا في جميع الوقت حتى لو كان فقيرا في أول الوقت ثم أيسر في آخره يجب عليه لما ذكرنا."

(کتاب التضحیة، فصل في شرائط وجوب في الأضحية، ج:5، ص:63، ط:دار الكتب العلمية)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144511102226

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں