بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1446ھ 21 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

”کمہار تیٹڑی“ کیڑے کو مارنے کا حکم


سوال

میرا سوال یہ کہ کیا ’’کمہار تیٹڑی‘‘ یعنی کمہار کیڑے کومارنا اور جو گھر وہ مٹی سے بناتا ہے ٗ اس کو توڑ دینا جائز ہے؟ کیوں کہ آج کل یہ کیڑا بہت تنگ کرتا ہے، اور جگہ جگہ اپنے گھر بناتا پھرتا ہے۔

جواب

بصورتِ مسئولہ اگر مذکورہ کیڑا فطرتاً ایک مؤذی کیڑا ہے، تو اس وجہ سے، یا اس کے مٹی جمع کر کے گھر بنانے کی وجہ سے صفائی ستھرائی میں خلل آنے کی وجہ سے، اس  کو مارنا جائز ہے، اور اگر فطرتاً مؤذی کیڑا نہیں ہے، تو تکلیف پہنچانے پر تو مارنا جائز ہے، بصورتِ دیگر اس کو مارنا مکروہ ہوگا۔

﴿الفتاوي الهندية﴾  میں ہے:

"ولا بأس بقتل الجراد لأنه صيد يحل قتله لأجل الأكل فلدفع الضرر أولى كذا في فتاوى قاضي خان. ويكره حرقها كذا في السراجية. ‌قتل ‌النملة تكلموا فيها والمختار أنه إذا ابتدأت بالأذى لا بأس بقتلها وإن لم تبتدئ يكره قتلها واتفقوا على أنه يكره إلقاؤها في الماء وقتل القملة يجوز بكل حال كذا في الخلاصة."

(کتاب الكراهية، الباب الحادي والعشرون، ج: ٥، ص:  ٣٦١، ط: رشيدية)

﴿البحر الرائق﴾  میں ہے:

"‌وقتل ‌النملة قيل لا بأس به مطلقا وقيل إن بدأت بالأذى فلا بأس به وإن لم تبتدئ يكره وهو المختار ويكره إلقاؤها في الماء وقتل القملة يجوز بكل حال."

(کتاب الکراهية، فصل في البيع، ج: ٨، ص: ٢٣٢، ط: دار الكتاب الإسلامي)

﴿منحة السلوك لبدر الدين العيني ؒ﴾  میں ہے:

"قوله: (ويكره ‌قتل ‌النملة، ما لم تبتدي بالأذى) لأن قتل الحيوان إنما يجوز لغرض صحيح، فإذا لم يؤذ: لا يقتل (بخلاف القملة) فإنه يجوز قتلها مطلقاً، سواء آذت أو لا، لأنها بالطبع مؤذية، وكذلك البراغيث."

(کتاب الكراهية، ص: ٤٢٥، ط: وزارة الأوقاف قطر)

فقط والله تعالى أعلم


فتوی نمبر : 144603102382

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں