ہم نے گھر میں ایک کنواں کھودا تھا، اب اس میں پانی کم آنے لگا ہے ، اور اس میں فی الحال صاف پانی بھی ہوتا ہے ، لیکن ہم نے تقریباً دس گز کے فاصلے پر ایک دوسرا بور کھود لیا ہے ۔
اب پوچھنا یہ ہے کہ ہم پہلے والے کنویں کو گٹر وغیرہ بناسکتے ہیں ؟
دوسری بات یہ ہے کہ شریعت میں دوسرا کنواں ، پہلے کنویں سے کتنے فاصلے پر بنایاجائے ؟تاکہ اگر پہلے کنویں کو گٹر وغیرہ کے لیے استعمال کیا جائے تو دوسرے کنویں کا پانی اس سے متاثر تو نہیں ہوگا؟
1.صورتِ مسئولہ میں اگر پہلے کنویں کی حاجت باقی نہیں ہے، اور اس میں پانی کی موجوگی کے باوجود اب اس پانی کے استعمال کی نوبت نہیں آئے گی ،اس صورت میں اس کنویں کو گٹر وغیرہ کے لیے استعمال کرسکتے ہیں ۔
2.دوسرا کنویں جب ذاتی ملکیت میں ہی دوسری جگہ کھودا جارہا ہے تو شرعاً اس کے لیے مسافت کی تحدید نہیں ، البتہ پہلے کنویں سے اتنے فاصلے پر کھودا جائے کہ پہلے کنویں کو گٹر میں تبدیل کرنے سے اس گندے پانی کا اثر دوسرے کنویں کے صاف پانی پر نہ پڑے ۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"للمالك أن يتصرف في ملكه أي تصرف شاء سواء كان تصرفا يتعدى ضرره إلى غيره أو لا يتعدى فله أن يبني في ملكه مرحاضا أو حماما أو رحى أو تنورا وله أن يقعد في بنائه حدادا أو قصارا وله أن يحفر في ملكه بئرا أو بالوعة أو ديماسا وإن كان يهن من ذلك البناء ويتأذى به جاره. وليس لجاره أن يمنعه حتى لو طلب جاره تحويل ذلك لم يجبر عليه؛ لأن الملك مطلق للتصرف في الأصل والمنع منه لعارض تعلق حق الغير فإذا لم يوجد التعلق لا يمنع إلا أن الامتناع عما يؤذي الجار ديانة واجب للحديث قال عليه الصلاة والسلام "المؤمن من أمن جاره بوائقه."
(كتاب الدعوى، فصل في بيان حكم الملك، ج:6، ص:264، ط: دار الكتب العلمية)
فتاوی ہندیہ میں ہے :
"بئر الماء إذا كانت بقرب البئر النجسة فهي طاهرة ما لم يتغير طعمه أو لونه أو ريحه. كذا في الظهيرية ولا يقدر هذا بالذرعان حتى إذا كان بينهما عشرة أذرع وكان يوجد في البئر أثر البالوعة فماء البئر نجس وإن كان بينهما ذراع واحد ولا يوجد أثر البالوعة فماء البئر طاهر. كذا في المحيط وهو الصحيح. هكذا في محيط السرخسي."
(کتاب الطہارۃ ، الباب الثالث فی المیاہ ، الفصل الأول فيما يجوز به التوضؤ :ج:1،ص:20 ، ط : رشیدیہ)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144601102435
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن