بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنا کب جائز ہے؟


سوال

کس حالت میں کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھ سکتے ہیں؟

جواب

جو شخص بیماری کی وجہ سے زمین پر  سجدہ کرنے پر قادر نہیں ہے، یا قیام و سجود کے ساتھ نماز پڑھنے کی صورت میں بیماری  میں اضافہ یا  شفا  میں تاخیر  یا ناقابلِ برداشت قسم کے درد  کا غالب گمان ہو  تو ان صورتوں میں کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے، البتہ کسی قابلِ برداشت معمولی درد  یا  کسی موہوم تکلیف  کی وجہ سے  فرض نماز میں قیام کو ترک کردینا اور کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنا جائز نہیں ۔

 اسی طرح جو شخص فرض نماز میں مکمل قیام  پر تو قادر نہیں  لیکن کچھ دیر کھڑا  ہو سکتا ہے اور سجدہ بھی زمین پر کرسکتا ہے توایسے شخص کے لیے اتنی دیر کھڑا  ہونا فرض ہے، اگر چہ کسی چیز کا سہارا لے کر کھڑا ہونا پڑے، اس کے بعد وہ بقیہ نماز  زمین  پر  بیٹھ کر پڑھ سکتا ہے، اور اگر زمین پر سجدہ کرنے  پر قادر نہیں تو ایسی صورت میں شروع ہی سے زمین یا کرسی پر بیٹھ کر نماز  پڑھ سکتا ہے۔            

نیز   جو شخص  زمین پر  سجدہ کرنے پر  قادر نہ ہو  اس کی نماز اشاروں والی ہوتی ہے اور  اس کے لیے بیٹھنے کی کوئی خاص ہیئت متعین نہیں ہے، وہ جس طرح سہولت ہو بیٹھ کر اشارہ سے  نماز پڑھ سکتا ہے، چاہے زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھے یا کرسی پر بیٹھ کر، البتہ زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھنا زیادہ بہتر ہے، لہذا ایسے لوگوں کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ زمین پر بیٹھ کر نمازادا کرسکتے ہیں تو زمین  پر بیٹھ کر نماز ادا کریں، اور اگر زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھنے  میں مشقت ہوتو  وہ کرسی پر بیٹھ کر  فرض نمازیں ، وتر اور سنن سب پڑھ سکتے  ہیں ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(من تعذر عليه القيام) أي كله (لمرض) حقيقي وحده أن يلحقه بالقيام ضرر به يفتى (قبلها أو فيها) أي الفريضة (أو) حكمي بأن (خاف زيادته أو بطء برئه بقيامه أو دوران رأسه أو وجد لقيامه ألما شديدا) أو كان لو صلى قائما سلس بوله أو تعذر عليه الصوم كما مر (صلى قاعدا) ولو مستندا إلى وسادةأو إنسان فإنه يلزمه ذلك على المختار (كيف شاء) على المذهب لأن المرض أسقط عنه الأركان فالهيئات أولى. وقال زفر: كالمتشهد، قيل وبه يفتى (بركوع وسجود وإن قدر على بعض القيام) ولو متكئا على عصا أو حائط (قام) لزوما بقدر ما يقدر ولو قدر آية أو تكبيرة على المذهب لأن البعض معتبر بالكل (وإن تعذرا) ليس تعذرهما شرطا بل تعذر السجود كاف (لا القيام أؤمأ) بالهمز (قاعدا).

 (قوله: كيف شاء) أي كيف تيسر له بغير ضرر من تربع أو غيره إمداد. (قوله :على المذهب) جزم به في الغرر ونور الإيضاح وصححه في البدائع وشرح المجمع واختاره في البحر والنهر. (قوله: فالهيئات أولى) جمع هيئة، وهي هنا كيفية القعود. قال ط: وفيه أن الأركان إنما سقطت لتعسرها ولا كذلك الهيئات اهـ تأمل (قوله: قيل وبه يفتى) قاله في التجنيس والخلاصة والولوالجية لأنه أيسره على المريض. قال في البحر: ولا يخفى ما فيه، بل الأيسر عدم التقييد بكيفية من الكيفيات فالمذهب الأول اهـ. وذكر قبله أنه في حالة التشهد يجلس كما يجلس للتشهد بالإجماع. اهـ.

أقول: ينبغي أن يقال إن كان جلوسه كما يجلس للتشهد أيسر عليه من غيره أو مساويا لغيره كان أولى وإلا اختار الأيسر في جميع الحالات، ولعل ذلك محمل القولين، والله أعلم."

(کتاب الصلوٰۃ، باب صلاة المریض، 2 / 95، 96 ، ط: سعید)

وفیہ ایضا:

"لو قدر على بعض القيام دون تمامه، أو كان يقدر على القيام لبعض القراءة دون تمامها يؤمر بأن يكبر قائما ويقرأ ما قدر عليه ثم يقعد إن عجز وهو المذهب الصحيح لا يروى خلافه عن أصحابنا؛ ولو ترك هذا خفت أن لا تجوز صلاته. وفي شرح القاضي: فإن عجز عن القيام مستويا قالوا يقوم متكئا لا يجزيه إلا ذلك، وكذا لو عجز عن القعود مستويا قالوا يقعد متكئا لا يجزيه إلا ذلك، فقال عن شرح التمرتاشي ونحوه في العناية بزيادة: وكذلك لو قدر أن يعتمد على عصا أو كان له خادم لو اتكأ عليه قدر على القيام اهـ .

(قوله لأن البعض معتبر بالكل) أي إن حكم البعض كحكم الكل، بمعنى أن من قدر على كل القيام يلزمه فكذا من قدر على بعضه."

(کتاب الصلوٰۃ، باب صلاة المریض، 2 / 97 ، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144511100921

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں