بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا بیٹے یا بھائی کی سوتیلی بیٹی محرم ہے؟


سوال

کیا بیٹے یا بھائی کی سوتیلی بیٹی محرم ہے؟

جواب

فقہاءِ کرام نے جہاں سسرالی رشتہ داری کی بنا پر محرمات کا ذکر کیا ہے وہاں صرف چار اصناف کا ذکر کیا ہے:

1. ساس اور اس کی ماں اوپر تک۔

2.سوتیلی بیٹی اور نواسی اور پوتی نیچے تک۔

3. بہو (بیٹوں اور پوتوں کی بیویاں)

4. آباء و اجداد کی بیویاں۔

ان چار قسموں میں  بیٹے کی سوتیلی بیٹی کا ذکر ہے،لہذا کسی بھی شخص کےبیٹے  کی سوتیلی بیٹی یعنی بیٹے  کی منکوحہ کے پہلے شوہر کی بیٹی اس شخص  کے حق میں محرم ہوتی ہے، اس لیے  اپنےبیٹے کی سوتیلی بیٹی سے نکاح کرنا جائز نہیں ہے ،ان چار قسموں میں سوتیلی بھتیجی (بھائی کی سوتیلی بیٹی) کا ذکر نہیں؛ لہذا کسی بھی شخص کےبھائی کی سوتیلی بیٹی یعنی بھائی کی منکوحہ کے پہلے شوہر کی بیٹی اس شخص  کے حق میں اجنبی ہوتی ہے، اس لیے  اپنے بھائی کی سوتیلی بیٹی سے نکاح کرنا جائز ہو گا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(القسم الثاني المحرمات بالصهرية) . وهي أربع فرق: (الأولى) أمهات الزوجات وجداتهن من قبل الأب والأم وإن علون (والثانية) بنات الزوجة وبنات أولادها وإن سفلن بشرط الدخول بالأم، كذا في الحاوي القدسي سواء كانت الابنة في حجره أو لم تكن، كذا في شرح الجامع الصغير لقاضي خان. وأصحابنا ما أقاموا الخلوة مقام الوطء في حرمة البنات هكذا في الذخيرة في نوع ما يستحق به جميع المهر. (والثالثة) حليلة الابن وابن الابن وابن البنت وإن سفلوا دخل بها الابن أم لا. ولا تحرم حليلة الابن المتبنى على الأب المتبني هكذا في محيط السرخسي.
(والرابعة) نساء الآباء والأجداد من جهة الأب أو الأم وإن علوا فهؤلاء محرمات على التأبيد نكاحا ووطئا، كذا في الحاوي القدسي."

(کتاب النکاح ،القسم الثاني المحرمات بالصهرية،ج:1ص: 274،ط،دار الفكر بيروت):  

فتاوی شامی میں ہے :

" (حرم) على المتزوج ذكرا كان أو أنثى نكاح (أصله وفروعه) علا أو نزل (وبنت أخيه وأخته وبنتها) ولو من زنى (وعمته وخالته) فهذه السبعة مذكورة في آية: {حرمت عليكم أمهاتكم} [النساء: 23]،  ويدخل عمة جده وجدته وخالتهما الاشقاء وغيرهن وأما عمة عمة أمه وخالة خالة أبيه حلال كبنت عمه وعمته وخاله وخالته، لقوله تعالى:{وأحل لكم ما وراء ذلكم} [النساء: 24] (و) حرم المصاهرة (بنت زوجته الموطوءة وأم زوجته) وجداتها مطلقاً بمجرد العقد الصحيح (وإن لم توطأ) الزوجة لما تقرر أن وطئ الامهات يحرم البنات، ونكاح البنات يحرم الامهات، ويدخل بنات الربيبة والربيب.
وفي الكشاف: واللمس ونحوه كالدخول عند أبي حنيفة، وأقره المصنف (وزوجة أصله وفرعه مطلقاً) ولو بعيداً دخل بها أو لا، وأما بنت زوجة أبيه أو ابنه فحلال (و) حرم (الكل) مما مر تحريمه نسبا ومصاهرة (رضاعا) إلا ما استثني في بابه."

(كتاب النكاح، فصل في المحرمات،ج:3،ص: 28-31،ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144510100331

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں