بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا کالج یونیورسٹی میں علوم دینیہ پڑھنے والوں کا قیامت کے دن علماء میں شمار ہوگا؟


سوال

 میں حافظ قرآن ہوں،  میں نے بلوچستان یونیورسٹی سے بی  اے اسلامیات میں کیاہے، اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں ایم اے اسلامک اسٹڈیز میں شعبہ 'فکر اسلامی تاریخ و ثقافت' میں ماسٹرز کر رہا ہوں۔

میرا سوال یہ ہے کہ کیا قیامت کے دن میرا شمار علماء میں ہو گا یا نہیں؟ یا صرف اور صرف درس نظامی پڑھنے والے عالم شمار ہوں گے؟ ایک دوست نے مجھے بتایا کہ آپ تو عالم نہیں ہیں؛  لہٰذا  آپ عالم شمار نہیں ہوں گے، اس بارے میں راہ نمائی کریں!

جواب

واضح رہے کہ  قرآن وسنت اور  ان  سے متعلق  علوم حاصل کرنے والے کو  شریعت کی اصطلاح میں عالم کہا جاتا ہے،  اور موجودہ زمانے میں یہ علوم دینی مدارس میں  پڑھے اور  پڑھائے جاتے ہیں، اور  کسی دینی مدرسے  میں مستند اساتذہ  سے ہی مذکورہ علوم پڑھنے والے کو عرفاً عالم دین کہا جاتا ہے، جب کہ یونیورسٹیوں میں یہ علوم مکمل طور  پر نہیں پڑھائے جاتے، بلکہ اس کا بہت قلیل حصہ پڑھایا جاتا ہے، مزید  یہ کہ عصری تعلیمی اداروں میں پڑھانے والے اساتذہ بھی صاحبِ نسبت و اَصحابِ سند  نہیں ہوتے  جب کہ یہ علومِ  الٰہیہ   اَصحابِ نسبت و سند اساتذہ سے ہی سینہ در سینہ منتقل ہوتے ہیں، چوں کہ عصری تعلیم گاہوں میں یہ  چیز نہیں ہوتی،  اس لیے آپ کے دوست کی بات درست ہے اور  یونیورسٹی میں پڑھنے والے کو  عالم  نہیں کہا جاسکتا۔

فتح الباری میں ہے:

"قوله يرفع الله الذين آمنوا منكم والذين أوتوا العلم درجات قيل في تفسيرها ‌يرفع ‌الله ‌المؤمن ‌العالم على المؤمن غير العالم ورفعة الدرجات تدل على الفضل إذ المراد به كثرة الثواب وبها ترتفع الدرجات ورفعتها تشمل المعنوية في الدنيا بعلو المنزلة وحسن الصيت والحسية في الآخرة بعلو المنزلة في الجنة وفي صحيح مسلم عن نافع بن عبد الحارث الخزاعي وكان عامل عمر على مكة أنه لقيه بعسفان فقال له من استخلفت فقال استخلفت بن أبزى مولى لنا فقال عمر استخلفت مولى قال إنه قارئ لكتاب الله عالم بالفرائض فقال عمر أما إن نبيكم قد قال إن الله يرفع بهذا الكتاب أقواما ويضع به آخرين وعن زيد بن أسلم في قوله تعالى نرفع درجات من نشاء قال بالعلم قوله وقوله عز وجل رب زدني علما واضح الدلالة في فضل العلم لأن الله تعالى لم يأمر نبيه صلى الله عليه وسلم بطلب الازدياد من شيء إلا من العلم والمراد بالعلم العلم الشرعي الذي يفيد معرفة ما يجب على المكلف من أمر دينه في عباداته ومعاملاته والعلم بالله وصفاته وما يجب له من القيام بأمره وتنزيهه عن النقائص ومدار ذلك على التفسير والحديث والفقه."

(ج: 1، ص: 141، ط: المكتبة السلفية - مصر)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"(وعن ابن سيرين) : وهو محمد بن سيرين، مولى أنس بن مالك، وهو من مشاهير التابعين... (قال: ‌إن ‌هذا ‌العلم ‌دين) : اللام للعهد، وهو ما جاء به النبي صلى الله عليه وسلم لتعليم الخلق من الكتاب والسنة وهما أصول الدين (فانظروا عمن تأخذون دينكم) : المراد الأخذ من العدول والثقات، "وعن" متعلق بتأخذون على تضمين معنى تروون، ودخول الجار على الاستفهام هنا كدخوله في قوله تعالى{على من تنزل الشياطين} [الشعراء: 221] وتقديره أعمن تأخذون، وضمن انظر معنى العلم، والجملة الاستفهامية سدت مسد المفعولين تعليقا كذا حققه الطيبي. رواه مسلم."

(كتاب العلم، ج: 1، ص: 336، ط: دار الفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144406102180

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں