کیا گناہ پرراضی ہونے والا ایسا ہی ہے ،جیسا کے گناہ کرنے والا؟ احیاءالعلوم جلد-2 صفحہ 244 پر ایک حدیث ہے، کہ جو شخص کسی کام سے راضی ہوں، اگرچہ وہ غیر حاضر ہوں، تو وہ ایسا سمجھا جائے گا کہ گویا اس کے کرنے میں شریک تھا، حالاں کہ ہم سنتے آئے ہیں کہ نیکی کا صرف ارادہ کرنے پر نیکی مل جاتی ہے جب کہ گناہ جب تک کر نہ لو تب تک وہ نہیں لکھاجاتا، مگر اس حدیث کے مطابق کسی نے گناہ نہیں کیا یا گناہ کی کسی مجلس کا شریک نہیں تھا،مگر وہ اس گناہ پر یا اس گناہ کی مجلس پر راضی ہے تو وہ ایسا ہے کہ گناہ کر لیا، یا اس گناہ کی مجلس کا شریک ہی ہے، برائے مہربانی تصحیح بھی فرما دیں اور راہ نمائی بھی کریں؟
صورتِ مسئولہ میں سائل نے إحیاءعلوم الدين کے حوالہ سے جس حدیث کا تذکرہ کیا ہے،وہ حدیث امام أبودواد نے اپنے سنن (باب الأمر والنھی،رقم الحدیث:4345) میں بھی ذکر کی ہے ،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جب زمین پر گناہ کے کام کیے جاتے ہوں تو جو شخص وہاں حاضر رہا اور اسے ناپسند کیا یا برا جانا ،اس کی مثال اُس شخص کے مانند ہے، جس نے اسے دیکھا ہی نہ ہو اور جو شخص وہاں حاضر نہ تھا، لیکن اسے پسند کیا تو وہ اُس شخص کی طرح ہے جو وہاں حاضر تھا۔“ (یعنی اسے بھی گناہ پر رضا مندی کے باعث گناہ ملے گا)
اس روایت کی تشریح میں "جامع العلوم والحکم لإبن رجب" میں ہےکہ :
گناہ کے کاموں پر رضامندی قبیح ترین محرمات میں سے ہے،اس لیے کہ گناہ پر رضامندی کے اظہار کرنے سے اس گناہ کو دل سے برا جاننا فوت ہورہاہے ،جو کہ ہر مسلمان پر فرض ہے،لہذا گناہ کے کام پر راضی ہونے والا گناہ گار اس وجہ سے ہوتا ہےکہ اس نے ایک اہم فریضہ جو کہ اُس سمیت ہر مسلمان پر لازم تھا اس نے وہ چھوڑدیا ہے، یعنی گناہ کے کام کو دل سے برا نہ ماننے کی وجہ سےیہ اُس گناہ میں شریک شمار ہوتا ہے۔
یہی بات امام قرطبیؒ نے بھی اپنی تفسیر "تفسیر قرطبی "میں سورۃ النساء کی آیت 140 کی تفسیر میں لکھی ہے، کہ :"إن الرضا بالمعصیة معصیة" کہ گناہ کے کام پر رضامندی بھی گناہ ہے۔
پس إحیاء علوم الدین والی روایت اپنی جگہ بالکل درست ہے۔
باقی سائل کا یہ کہنا کہ: ہم سنتے آئے ہیں کہ نیکی کا صرف ارادہ کرنے پر نیکی مل جاتی ہے، جب کہ گناہ جب تک کر نہ لو تب تک وہ نہیں لکھ جاتا،سائل کی یہ بات مطلقاً درست نہیں ہے ،اس لیے کہ اس سے گناہ کے کام کا وہ ارادہ مراد ہےجو عزم کی حد تک نہ پہنچا ہو ،محض خیال آیا ہو،اور جب گناہ پر ارادہ عزم کی حد تک پہنچ جاتا ہے،تو ایسے ارادہ پر بھی گناہ لکھا جاتا ہے۔
إحیاء علوم الدین میں ہے:
" وقال أبو هريرة رضي الله عنه: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: من حضر معصية فكرهها فكأنه غاب عنها ومن غاب عنها فأحبها فكأنه حضرها."
(كتاب الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر،309/2،ط:دار المعرفة - بيروت)
بذل المجہود میں ہے:
"عن العرس) بضم أوله وسكون، ابن عميرة الكندي، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: إذا عملت الخطيئة) أي المعصية (في الأرض كان من شهدها) أي حضرها (فكرهها) أي: عدها مكروها، وما رضي بها، (وقال مرة: أنكرها) في موضع: "كرهها"، أي: عدها منكرا، كمن غاب عنها) أي مثل من لم يحضرها فلا يلحقه ضررها، (ومن كتاب عنها فرضيها) أي الخطيئة كان كمن شهدها ) في الإثم."
وفی الحاشیۃ:
لا يشكل عليه ما في البخاري (6491): "من هم بسيئة فلم يعملها كتبت له حسنة"؛ لأن عدم العمل فيها باختياره خوفا من الله."
(کتاب الملاحم، باب فی الأمر والنھي، 404/12، ط: مركز الشيخ أبي الحسن الندوي للبحوث والدراسات الإسلامية، الهند)
تفسیر قرطبی میں ہے:
"قوله تعالى: (فلا تقعدوا معهم حتى يخوضوا في حديث غيره) أي غير الكفر. (إنكم إذا مثلهم) فدل بهذا على وجوب اجتناب أصحاب المعاصي إذا ظهر منهم منكر، لأن من لم يجتنبهم فقد رضي فعلهم، والرضا بالكفر كفر، قال الله عز وجل: (إنكم إذا مثلهم). فكل من جلس في مجلس معصية ولم ينكر عليهم يكون معهم في الوزر سواء، وينبغي أن ينكر عليهم إذا تكلموا بالمعصية وعملوا بها، فإن لم يقدر على النكير عليهم فينبغي أن يقوم عنهم حتى لا يكون من أهل هذه الآية. وقد روي عن عمر بن عبد العزيز رضي الله عنه أنه أخذ قوما يشربون الخمر، فقيل له عن أحد الحاضرين: إنه صائم، فحمل عليه الأدب وقرأ هذه الآية (إنكم إذا مثلهم) أي إن الرضا بالمعصية معصية، ولهذا يؤاخذ الفاعل والراضي بعقوبة المعاصي حتى يهلكوا بأجمعهم."
(سورۃ النساء،418/5، ط: دار الكتب المصرية - القاهرة)
جامع العلوم والحکم لإبن رجب میں ہے:
" وفي سنن أبي داود عن العرس بن عميرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: إذا عملت الخطيئة في الأرض، كان من شهدها، فكرهها كمن غاب عنها، ومن غاب عنها، فرضيها، كان كمن شهدها، فمن شهد الخطيئة، فكرهها بقلبه، كان كمن لم يشهدها إذا عجز عن إنكارها بلسانه ويده، ومن غاب عنها فرضيها كان كمن شهدها وقدر على إنكارها ولم ينكرها؛ لأن الرضا بالخطايا من أقبح المحرمات، ويفوت به إنكار الخطيئة بالقلب، وهو فرض على كل مسلم، لا يسقط عن أحد في حال من الأحوال."
(الحدیث الرابع والثلاثون، 701، ط: دار ابن كثير، دمشق - بيروت)
عمدۃ القاری میں ہے:
" وقال ابن الجوزي: إذا حدث العبد نفسه بالمعصية لم يؤاخذ، فإذا عزم فقد خرج عن تحديث النفس فيصير من أعمال القلب، فإن عقد النية على الفعل فحينئذ يأثم."
( کتاب الرقاق، باب من ھم بحسنة أو بسیئة، 80/23، ط: إدارة الطباعة المنيرية)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144411101366
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن