والدین نے باقی بہن بھائیوں کے کہنے پر مجھے ایک بات سے منع فرمایا ہے، جو میرے لئے فرمانبرداری بہت مشکل ہے،میں اپنے والدین کی ہر بات ماننے کی بہت کوشش کرتا ہوں ،لیکن یہ مجھ سے نہیں ہوگا، میں اس معاملے میں کیا کروں، میں اس کے علاوہ ان کی ہر بات ماننے کی کوشش کرتا ہوں ۔
والدین نے جس کام سے منع کیا ہے اس کی نشاندہی ہو جانے کے بعد کوئی تسلی بخش جواب دیا جا سکتا ہے ،تاہم ’’امداد الفتاوی‘‘ کا مندرجہ ذیل اقتباس ملاحظہ کرنا آپ کے لیے مفید ہوسکتا ہے:
’’جو امر شرعا نہ واجب اور نہ ممنوع ہو بلکہ مباح ہو بلکہ خواہ مستحب ہی ہو، اور ماں باپ اس کے کرنے یا نہ کرنے کو کہیں، تو اس میں تفصیل ہے، دیکھنا چاہیے کہ اس امر کی اس شخص کو ایسی ضرورت ہے کہ بدون اس کے تکلیف ہوگی، مثلا غریب آدمی ہے، پاس پیسہ نہیں، بستی میں کوئی صورت کمائی کی نہیں، مگر ماں باپ نہیں جانے دیتے، یا یہ کہ اس شخص کو ایسی ضرورت نہیں، اگر اس درجہ کی ضرورت ہے تب تو اس میں ماں باپ کی اطاعت ضروری نہیں، اور اگر اس درجہ کی ضرورت نہیں تو پھر دیکھنا چاہیے کہ اس کام کے کرنے میں کوئی خطرہ و اندیشہ ہلاک یا مرض کا ہے یا نہیں، اور یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ اس شخص کے اس کام میں مشغول ہو جانے سے ان کو بوجہ کوئی خادم اور سامان نہ ہونے کے خود ان کے تکلیف اٹھانے کا احتمال قوی ہے یا نہیں، پس اگر اس کام میں خطرہ ہے،یا اس کے غائب ہو جانے سے ان کو بوجہ بےسروسامانی تکلیف ہوگی تب ان کی مخالفت جائز نہیں، مثلا غیر واجب لڑائی میں جاتا ہے،یا سمندر کا سفر کرتا ہے، یا پھر کوئی ان کا کوئی خبر گیر نہ رہے گا، اور اس کے پاس اتنا مال نہیں جس سے انتظام خادم و نفقہ کافیہ کا کر جاوے، اور وہ کام یا سفر بھی ضروری نہیں تو اس حالت میں ان کی اطاعت واجب ہوگی، اور ان دونوں باتوں میں سے کوئی بات نہیں یعنی نہ اس کام یا سفر میں اس کو کوئی خطرہ ہے، اور نہ ان کی مشقت اور تکلیف ظاہری کا کوئی احتمال ہے تو بلا ضرورت بھی وہ کام یا سفر باوجود ان کی ممانعت کے جائز ہے، گو مستحب یہی ہے کہ اس وقت بھی اطاعت کرے۔‘‘
(امداد الفتاوی، رسالہ تعدیل حقوق الوالدین ،ج:4،ص:485،484،ط:مکتبہ دارالعلوم کراچی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144511101043
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن