کیا ختم قرآن کہنا درست ہے؟
احادیث میں ختم قرآن کا لفظ استعمال ہوا ہے،اور عرف میں اس سے قرآن کریم کی تکمیل مراد لی جاتی ہے، لہذا ختم قرآن کہنا درست ہے، اس میں بےادبی کا پہلو نہیں ہے۔
مسند دارمی میں ہے:
حدثنا محمد بن حميد، حدثنا هارون، عن عنبسة، عن ليث، عن طلحة بن مصرف، عن مصعب بن سعد، عن سعد، قال: "إذا وافق ختم القرآن اول الليل، صلت عليه الملائكة حتى يصبح، وإن وافق ختمه آخر الليل، صلت عليه الملائكة حتى يمسي، فربما بقي على احدنا الشيء، فيؤخره حتى يمسي او يصبح". قال ابو محمد: هذا حسن عن سعد.
(کتاب فضائل القر آن، باب فی ختم القرآن، ص: 787، ط: دار البشائر الاسلامیة)
ترجمہ: "سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر ختم قرآن رات کے شروع حصے میں ہو جائے، تو اس کے صبح کرنے تک فرشتے اس (قاری) کے لئے دعا کرتے ہیں، اور اگر رات کے آخری حصے میں ختم قرآن کا اتفاق ہوا تو اس پر فرشتے شام تک دعا کرتے ہیں، کبھی ہم میں سے کسی کا ختم قرآن میں سے کچھ حصہ باقی رہ جاتا تو وہ شام کے لئے یا صبح کے لئے ختم کرنا مؤخر کر دیتا۔"
وفیہ ایضا:
حدثنا سعيد بن الربيع، حدثنا شعبة، عن الحكم، عن مجاهد، قال: "بعث إلي ، قال: إنما دعوناك انا اردنا ان نختم القرآن، وإنه بلغنا ان الدعاء يستجاب عند ختم القرآن، قال: فدعوا بدعوات".
(کتاب فضائل القر آن، باب فی ختم القرآن، ص: 787، ط: دار البشائر الاسلامیة)
ترجمہ: "مجاہد رحمہ اللہ نے کہا: میرے پاس بلاوا آیا اور کہا کہ ہم آپ کو ختم قرآن میں شرکت کی دعوت دیتے ہیں، کیوں کہ ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ ختم قرآن کے وقت دعا قبول ہوتی ہے، اور انہوں نے دعائیں کیں۔"
وفیہ ایضا:
حدثنا ابو المغيرة، حدثنا الاوزاعي، عن عبدة، قال: "إذا ختم الرجل القرآن بنهار، صلت عليه الملائكة حتى يمسي، وإن فرغ منه ليلا، صلت عليه الملائكة حتى يصبح".
(کتاب فضائل القر آن، باب فی ختم القرآن، ص: 785، ط: دار البشائر الاسلامیة)
ترجمہ: "عبدہ نے کہا: جب کوئی آدمی دن میں قرآن پاک ختم کرتا ہے تو شام تک فرشتے اس کے لئے دعا کرتے ہیں، اور رات میں اس کی قراءت سے فارغ ہوا تو صبح تک فرشتے اس کے لئے دعا کرتے ہیں۔"
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144609102408
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن