بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1446ھ 28 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

کیا کوئی گناہ ایسا بھی ہے جو توبہ سے معاف نہیں ہو سکتا


سوال

وہ گناہ جو توبہ سے معاف نہیں ہوتے وہ کون کون سے  گناہ ہیں؟

جواب

صدق دل کے ساتھ کی گئی سچی توبہ سے کبیرہ گناہ خواہ جس طرح کا گناہ بھی ہو  معاف ہو جاتا ہے، توبہ کرتے وقت یہ پختہ عزم ہونا چاہے کہ آئندہ یہ گناہ نہیں کروں گا، اگر خدانخواستہ اس کے بعد پھر توبہ توڑ دی تو اس سابقہ گناہ کا وبال لوٹ کر نہیں آئے گا۔  

نیز گناہوں سے معافی کے لیے سچی توبہ کے درجِ ذیل تین رکن ہیں:

اول اپنے کیے پر ندامت اور شرم ساری، حدیث میں ارشاد ہے: "إنما التوبة الندم" ”یعنی توبہ نام ہی ندامت کا ہے“۔

 دوسرا رکن توبہ کا یہ ہے کہ جس گناہ کا ارتکاب کیا ہے اس کو فوراً چھوڑ دے اور آئندہ اس سے باز رہنے کا پختہ عزم و ارادہ کرے۔

تیسرا رکن یہ ہے کہ تلافی مافات کی فکر کرے، یعنی جو گناہ سر زد ہو چکا ہے اس کا جتنا تدارک اس کے قبضہ میں ہے اس کو پورا کرے، مثلاً نماز روزہ فوت ہوا ہے تو اس کو قضا کرے فوت شدہ نمازوں اور روزوں کی صحیح تعداد یاد نہ ہو، تو غور و فکر سے کام لے کر تخمینہ متعین کرے، پھر ان کی قضا کرنے کا پورا اہتمام کرے، بیک وقت نہیں کر سکتا تو ہر نماز کے ساتھ ایک ایک نماز قضاءِ شدہ  کی پڑھ لیا کرے، ایسے ہی متفرق اوقات میں روزوں کی قضا کا اہتمام کرے، فرض زکاۃ ادا نہیں کی تو گزشتہ زمانہ کی زکاۃ بھی یک مشت یا تدریجاً ادا کرے، کسی انسان کا حق لے لیا ہے تو اس کو واپس کرے، کسی کو تکلیف پہنچائی ہے تو اس سے معافی طلب کرے، بندے کا حق اس کے معاف کیے بغیر معاف نہیں ہوسکتا، حقوق العباد سے متعلق گناہوں سے توبہ کی تکمیل کے لیے یہ ضروری شرط ہے۔

لیکن اگر اپنے کیے پر ندامت نہ ہو، یا ندامت تو ہو مگر آئندہ کے لیے اس گناہ کو ترک نہ کرے، تو یہ  کامل توبہ نہیں ہے۔

 لہٰذا جس شخص سےگناہ سرزد ہوگیا ہو اگر وہ ان شرائط کے ساتھ توبہ کرچکا ہے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امید ہے کہ وہ گناہوں کو معاف فرمائیں گے، اب اسے چاہیے کہ آئندہ ان گناہوں سے بچنے کا اہتمام کرے، اور کسی متبعِ سنت اللہ والے سے اصلاحی تعلق قائم کرے اور جتنا ہوسکے اپنی نشست وبرخاست نیک لوگوں کے ساتھ رکھے، عبادات و طاعات میں اہتمام کے ساتھ مشغول رہے، حسبِ توفیق صدقہ بھی ادا کرتارہے۔

قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ بواسطہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اپنے گناہ گار بندوں سے ارشاد فرماتے ہیں:

’’قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ‘‘ [الزمر:53]

ترجمہ: آپ کہہ دیجیے کہ اے میرے بندو! جنہوں نے (کفر و شرک کرکے) اپنے اوپر زیادتیاں کی ہیں کہ تم اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہو، بالیقین اللہ تعالیٰ تمام (گزشتہ) گناہوں کو معاف فرمائے گا، واقع وہ بڑا بخشنے والا، بڑی رحمت کرنے والا ہے۔

(سورۃ الزمر، رقم الآیۃ:53، ترجمہ: بیان القرآن)

تفسير روح المعاني میں ہے:

"يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحًا عَسَى رَبُّكُمْ أَنْ يُكَفِّرَ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيُدْخِلَكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ...

أخرجه ابن مردويه عن ابن عباس قال: «قال معاذ بن جبل: يا رسول الله ما التوبة النصوح؟ قال: أن يندم العبد على الذنب الذي أصاب فيعتذر إلى الله تعالى ثم لا يعود إليه كما لا يعود اللبن إلى الضرع»...

وقال الإمام النووي: التوبة ما استجمعت ثلاثة أمور: أن يقلع عن المعصية وأن يندم على فعلها وأن يعزم عزما جازما على أن لا يعود إلى مثلها أبدا فإن كانت تتعلق بآدمي لزم رد الظلامة إلى صاحبها أو وارثه أو تحصيل البراءة منه، وركنها الأعظم الندم." 

(سورة التحريم، رقم الآية:08، ج:14، ص:352، ط:داراحىاء التراث العربى)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144603102482

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں