بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 ذو القعدة 1446ھ 29 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

میراث کی تقسیم میں تأخیر کرنا مناسب نہیں ہے


سوال

میرے والد محترم نے اپنے انتقال کے سال اپنے135گز کےمکان کو دو حصوں میں لیز کرنے یعنی(قانونی رجسٹری کرواکر دو بندوں کے نام کرنے)کا اظہار کیا تھاکہ اُسے دوحصوں میں لیز کروں گا،1996ء میں ان کا انتقال ہوا،ان کےانتقال کے بعد 1998ءمیں ہم نے اُسے  دو حصوں میں لیز کردیا یعنی(قانونی رجسٹری کرواکر دو بندوں کے نام کردیا)،30گز کا ایک حصہ میری والدہ محترمہ کے نام جو ابھی حیات ہے، اور 105گزکا دوسرا حصہ ہم دو بھائیوں کے نام ،نام کرنے کے بعدہم  (والدہ،تین بھائی)اسی گھر میں رہتے ہیں،اب میری کچھ بہنیں اپنا حق طلب کر رہی ہیں ،لیکن گھر کا ایک(1) حصہ جو دو بھائیوں کے نام ہے اوروہ دوسرا(2) حصہ جو کہ والدہ کے نام ہے دونوں حصوں کوملائے بغیر مارکیٹ قیمت پر فروخت نہیں ہوسکتا،اب سوال یہ ہے!کہ اس صورت میں ہمیں اپنی بہنوں کا حق دینے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟آیا پورا گھر فروخت کر کے ان کو حصہ دیا جائے یا جب تک والدہ حیات ہے ان کو حصہ نہ دیا جائے،والدہ کی عمر کافی زیادہ ہوچکی ہے ان کا کہنا ہے کہ میرے انتقال کے بعد اس کی تقسیم کی جائے،ورثاء میں  بیوہ،تین بیٹے،سات بیٹیاں ہیں۔

نوٹ:اگر ہم مکان کے دو حصوں میں سے صرف ایک حصہ  فروخت کریں گے تو مارکیٹ کی قیمت سے اس کی قیمت بہت کم ہوجائے گی۔

جواب

واضح رہے کہ میراث کی تقسیم میں حتی الامکان جلدی کرنی چاہیے،بغیر کسی سخت مجبوری کے تاخیر کرنا مناسب نہیں،اس لیے کہ اگر بر وقت میراث کی تقسیم نہ  کی جائے تو آگے چل کر بہت سے مسائل کھڑے ہوجاتے ہیں اور اگر کچھ ورثاء تقسیم کا مطالبہ کررہے ہوں تو پھران وُرثاء کو ان کے حصوں کی ادائیگی ضروری ہے،صورت مسئولہ میں مذکورہ گھر تمام شرعی ورثاء کے درمیان مشترک ہے،لہٰذااگر بعض بہنیں اپنا حق طلب کر رہی ہیں تو والد کے ترکہ کو تقسیم کرنا ضروری ہے،البتّہ زیر نظر مسئلہ میں والد کے انتقال کے بعد گھر کا ایک حصہ دو بھائیوں کے نام لیز کروایا گیااور دوسرا حصہ والدہ کے نام لیز کروایا گیا تو لیز کرنے سے یہ دونوں حصے والد کے ترکہ سے خارج نہیں ہوئے بلکہ یہ دونوں حصے بھی والد کا ترکہ ہیں،لہٰذا سائل کے والد کے انتقال کے بعدیہ پورا مکان مرحوم والد کا ترکہ ہے اور تمام شرعی ورثاءمیں شرعی حصوں کے اعتبار سے تقسیم ہوگا۔

اور جب مذکورہ بہنیں متروکہ مکان میں اپنا اپنا شرعی حصہ طلب کر رہی ہیں تو پورے مکان کی مارکیٹ قیمتِ فروخت لگوا کر ان کے حصہ کی رقم انہیں دیدی جائے اس میں ٹال مٹول سے کام نہ لیا جائے۔

مرحوم کے ترکہ کی تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ مرحوم کے  حقوقِ  متقدمہ     یعنی تجہیز و تکفین کا  خرچہ نکالنے کے بعد اگر مرحوم کے ذمہ  کوئی قرض ہو تو  اسے ادا کرنے کے بعد اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو باقی مال کے ایک تہائی حصہ میں اسے نافذکرنے کے بعد باقی کل ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کو 104حصوں میں تقسیم کر کے 13 حصے مرحوم کی بیوہ کو ، 14 حصے مرحوم کے ہر ایک بیٹے کو اور 7،7حصے مرحوم کے ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

میت:(والد)104/8

بیوہبیٹابیٹابیٹابیٹیبیٹیبیٹیبیٹیبیٹیبیٹیبیٹی
17
131414147777777

یعنی فیصد کے اعتبار سے12.5بیوہ کو ،اور 13.4615ہرایک بیٹے کو ،اور6.7307ہر ایک بیٹی کوملے گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"بخلاف جعلته باسمك فإنه ليس بهبة وكذا هي لك حلال إلا أن يكون قبله كلام يفيد الهبة خلاصة"

(کتاب الھبة، ج:5، ص:689، ط:سعید)

فتاوی قاضی خان میں ہے:

"واذا مات الرجل وترک ارضین او دارین فطلب ورثۃ القسمۃ علی ان یأخذ کل واحد منہم نصیبہ من کلا الارضین والدارین جازت القسمۃ ،وان قال احدھم للقاضی اجمع نصیبی من الدارین والارضین فی دار واحدۃ وفی ارض واحدۃ فابیٰ صاحبہ قال ابو حنیفۃ رحمہ اللہ یقسم القاضی کل دار و کل ارض علی ٰحدۃ ولا یجمع نصیب احدھم فی دار واحدۃ ولا فی ارض واحدۃ ،وقال صاحباہ الرأی الی القاضی ان رأی الجمع یجمع والّا فلا."

(کتاب القسمۃ،ج:3، ص:213، ط:بلوشستان بک دبو)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144609101661

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں