میں ایک میڈیکل سینٹر میں کام کرتا ہوں، جہاں خواتین بھی زیادہ آتی ہیں، ان کا علاج کرنا، بلڈ پریشر چیک کرنا میری ذمہ داری ہے، کوشش کے باوجود بھی نظر کی حفاظت نہیں ہوپاتی، نظر اور دل کی حفاظت کے لیے رہنمائی فرمائیں کہ مجھے کیا بہتر حکمت عملی اختیار کرنی چاہیئے۔
صورتِ مسئولہ میں اصل حکم یہی ہے کہ مرد مرد ڈاکٹر سے علاج کروائیں، اور خواتین خواتین ڈاکٹر سے علاج کروائیں، لہذا سائل کو چاہیے کہ ایسی جگہ نوکری اختیار کرے، جہاں خواتین کے علاج معالجہ کی ضرورت پیش نہ آتی ہو۔
تاہم اگر ضرورت و مجبوری ہو تو خاتون کے لیے مرد ڈاکٹر/ طبیب سے علاج کروانے کی اجازت ہوگی، البتہ ایسی صورت میں خاتون پردہ کا اہتمام کرے، اور مرد ڈاکٹر اپنی نظر کی حفاظت کرے۔
نیز علاج کرنے والے شخص کو شریعت نے پابند کیا ہے کہ وہ اپنی نظروں کی حفاظت کرے، کیوں کہ بیماری کی جگہ دیکھنے کی اگرچہ طبیب کو اجازت ہے، تاہم اس جگہ کے علاوہ جسم کے بقیہ اعضاء پر نظر کرنے کی اجازت نہیں، لہذا سائل جب بھی اپنی ڈیوٹی سرانجام دینے بیٹھے، تو نظریں جھکا کر کام کرے، اللہ رب العزت کا استحضار رکھے، اور استغفار کرتا رہے، اور اللہ سے مدد مانگتا رہے،اور اگر نظر کی حفاظت مشکل ہے، تو شعبہ یا ملازمت بدلنے کی کوشش کریں۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ويجوز النظر إلى الفرج للخاتن وللقابلة وللطبيب عند المعالجة ويغض بصره ما استطاع، كذا في السراجية. ... امرأة أصابتها قرحة في موضع لا يحل للرجل أن ينظر إليه لا يحل أن ينظر إليها لكن تعلم امرأة تداويها، فإن لم يجدوا امرأة تداويها، ولا امرأة تتعلم ذلك إذا علمت وخيف عليها البلاء أو الوجع أو الهلاك، فإنه يستر منها كل شيء إلا موضع تلك القرحة، ثم يداويها الرجل ويغض بصره ما استطاع إلا عن ذلك الموضع، ولا فرق في هذا بين ذوات المحارم وغيرهن؛ لأن النظر إلى العورة لا يحل بسبب المحرمية، كذا في فتاوى قاضي خان،ولو خافت الافتصاد من المرأة فللأجنبي أن يفصدها، كذا في القنية."
(كتاب الكراهية، الباب الثامن فيما يحل للرجل النظر اليه وما لا يحل له، ٥ / ٣٣٠، ط: دار الفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603101357
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن