بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 ذو القعدة 1446ھ 29 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

کیا صرف رشتہ طے کرنے سے نکاح ہو جاتا ہے؟


سوال

 لڑکی کے والد اور لڑکے کے والد نے منگنی کی مجلس میں باہم باقاعدہ طور پر رشتہ طے کیا، اور لڑکے کے والد کی جانب سے مہر بھی مقرر کر دیا گیا۔  دونوں فریق نے لوگوں کے سامنے رشتہ دینے کا اقرار بھی کیا۔کچھ عرصہ بعد معلوم ہوا کہ لڑکا انتہائی بدکردار ہے اور چوری، مال غصب کرنے اور دیگر ناپسندیدہ افعال میں ملوث ہے۔اب لڑکی کا والد اس رشتے پر آمادہ نہیں، اور خود لڑکی بھی اس نکاح کو نہیں چاہتی۔پوچھنا یہ ہے کہ:

1:کیالڑکی کے والد کے رشتہ دینے کے اقرار سے شرعی نکاح واقع ہو جاتا ہے؟

2: اگریہ نکاح شمار نہیں ہوتا تو کیا صرف لڑکی کے والد کے یہ کہنے سے کہ "میں اب راضی نہیں ہوں" معاملہ ختم ہو جائے گا؟ ورنہ کیا صورت ہوگی ہماری رہنمائی فرمائیں۔

جواب

1:واضح رہے کہ منگنی کی حیثیت وعدۂ نکاح کی ہوتی ہے اور منگنی کا مقصد مستقبل میں ہونے والے نکاح کے عقد کو پختہ کرنا ہوتا ہے، کبھی کبھار اس مجلس میں نکاح کے لیے ابتدائی اور ضروری امور مثلاً: مہر وغیرہ بھی طے کر لیے جاتے ہیں، منگنی کے لیے شریعت نے کوئی مخصوص طریقہ مقرر نہیں کیا، اگر اس موقع پر تبرک کے لیے خطبہ پڑھ کر لڑکی اور لڑکے کے ولی ایجاب و قبول بھی کرلیں تو اس کی گنجائش ہے،لہذا اگر کسی مجلس کے انعقاد کا مقصد منگنی ہوتو اس صورت میں مہر ذکر کرنے اور ایجاب وقبول کرنے کے باوجود بھی اس کی حیثیت وعدۂ نکاح ہی کی رہے گی اور اس سے نکاح منعقد نہیں ہوگااور اس کے ختم کرنے پر مہر کی ادائیگی لازم نہیں ہوگی اور چوں کہ منگنی کی حیثیت وعدۂ نکاح کی ہے  اور شریعت کا حکم وعدہ کے سلسلے میں یہ ہے کہ اسے پورا کیا جائے، تاہم شدید مجبوری کی صورت میں اس کے خلاف کرنے کی گنجائش ہے، لہذا اگر واقعۃً لڑکے کا کردار صحیح نہیں ہے تو منگنی توڑنے میں کوئی گناہ نہیں ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں جب یہ مجلس منگنی کے لیے منعقد کی گئی تھی ،تو اس میں مہر ذکرکرنے اور رشتہ دینےسے شرعی نکاح منعقد نہیں ہوا،بلکہ اس کی حیثیت وعدۂ نکاح ہی کی رہے گی،لہذا اس کے ختم کرنے پر مہر لازم نہیں ہوگا۔

2:منگنی ختم کرنے کے لیے طلاق کے الفاظ استعمال کرنا ضروری نہیں، صرف اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ ہم نے منگنی ختم کردی ہے۔اگر واقعۃً لڑکے کی یہی صورت حال ہے جو سوال میں ذکر کی گئی ہے اوراس کی اصلاح کی کوئی ممکنہ صورت نہ ہو تو اس منگنی کو ختم کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"هل أعطيتنيها إن المجلس للنكاح، وإن للوعد فوعد.قال في شرح الطحاوي: لو قال هل أعطيتنيها فقال أعطيت إن كان المجلس للوعد فوعد، وإن كان للعقد فنكاح."

(‌‌كتاب النكاح،ج:3،ص:11،ط:سعيد)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144610100615

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں