بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

محارم ، بہو اور سالی کو شہوت سے چھونا اور مصافحہ کا حکم


سوال

1۔ بیوی کی ماں،  بہن کے ساتھ، اس طرح اپنی ، ماں بہن کے ساتھ اوربہو یعنی بیٹےکی بیوی کے ساتھ  ،اپنی  بیٹی اوربہن کی بیٹی کے ساتھ شہوت کے ساتھ ہاتھ لگانا یا مصافحہ کرنا وغیرہ سے کون سے  نقصانات ہیں   ؟ہرایک  کا حکم واضح کریں، راہ نمائی فرمائیں۔  

2۔بیوی کی بہن کے ساتھ بات چیت اور بغیر شہوت کےمصافحہ وغیرہ جائز ہے  یا نہیں ؟

جواب

صورت مسئولہ میں اپنی ماں ،بیٹی ،بہن ،بہن کی بیٹی کے ساتھ مصافحہ کرناجائز ہے لیکن اگر شہوت کا اندیشہ ہوتو پھر مصافحہ کرنا جائز نہیں کیوں کہ  جس طرح کسی عورت سے جماع کی وجہ سے حرمتِ مصاہرت ثابت ہوتی ہے،اسی طرح کسی عورت کو شہوت کے ساتھ چھونے سے بھی حرمتِ مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے، لیکن چھونے سے   حرمتِ مصاہرت ثابت ہونے کے لیے چند شرائط  کا پایا جانا ضروری ہے، لہذا  اگر کسی آدمی نے اپنی ماں ،بہن  ،بہووغیرہ کو شہوت کے ساتھ چھولیا اور مذکورہ شرائط پائی گئیں تو حرمتِ مصاہرت ثابت ہوجائے گی۔شرائط مندرجہ ذیل ہیں:

1: مس بغیر حائل کے ہو یعنی درمیان میں کوئی کپڑا وغیرہ نہ ہو، یا  درمیان میں حائل اس قدر باریک ہو   کہ اس سے جسم کی حرارت پہنچتی ہو۔

2:  وہ بال جو سر سے نیچے لٹکے ہوئے ہوئے ہیں ان کو چھونے سے حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی، بلکہ صرف ان بالوں کو چھونے سے حرمت ثابت ہوگی جو سر سے ملے ہوئے ہیں ۔

3: چھوتے وقت جانبین میں یا کسی ایک میں شہوت  پیدا ہو، مرد کے لیے شہوت کا معیار یہ ہے کہ   اس کے آلہ تناسل میں انتشار پیدا ہوجائے، اور اگر آلہ تناسل پہلے سے منتشر ہو تو اس میں اضافہ ہوجائے، اور  بیمار  اور بوڑھے  مرد جن کو انتشار نہیں ہوتا اور عورتوں کے لیے شہوت کا معیار یہ ہے کہ  دل  میں  ہیجان  کی کیفیت پیدا ہو اور دل کو لذت حاصل ہو،اور دل کا ہیجان پہلے سے ہوتو اس میں اضافہ ہوجائے۔

4: شہوت چھونے کے ساتھ ملی ہوئی ہو،  اگر چھوتے وقت شہوت پیدا نہ ہو، اور پھر بعد میں شہوت پیدا ہوتو اس کا اعتبار نہیں ہے، اس سے حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔

5: شہوت تھمنے سے پہلے انزال نہ ہوگیا ہو، اگر انزال ہوگیا تو حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔

6: عورت کی عمر کم از کم نو سال اور مرد کی عمر کم ازکم بارہ سال ہو۔

7: اگر چھونے والی عورت ہے اور وہ شہوت کا دعوی کرے  یا چھونے والا مرد ہے اور وہ شہوت کا دعوی کرےتو شوہر کو  اس خبر کے سچے ہونے کا غالب گمان ہو، اس لیے عورت کے دعوی سے شوہر کا حق باطل  ہوتاہے، اس لیے عورت کا    صرف دعوی کافی نہیں،   بلکہ شوہر کو ظنِ غالب  حاصل ہونا  یا  شرعی گواہوں کا ہونا ضروری ہے۔

لہذا صورت مسئولہ میں بیوی کی ماں یعنی ساس ،اوراپنی ماں اور اپنی بیٹی کو شہوت  کےساتھ بغیر حائل کے  (یعنی درمیان میں کوئی کپڑا وغیرہ نہ ہو، یا  درمیان میں حائل اس قدر باریک ہو   کہ اس سے جسم کی حرارت پہنچتی ہو)چھونے سے حرمت مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے ،ساس کو شہوت کےساتھ چھونے سےمرد پر اپنی بیوی حرام ہوجائےگی اورماں کو شہوت کے ساتھ چھونےسے مرد(چھونےوالے) کے والد پر  اس کی بیوی حرام ہوجائے گی اوراپنی بیٹی کو  شہوت  کے ساتھ چھونے سے مرد پراپنی بیوی حرام ہوجائے گی، باقی رہا بیوی کی بہن اوراپنی بہن اوراپنی بہن کی بیٹی کو شہوت  کے ساتھ چھونے سے حرمت مصاہرت  تو ثابت نہیں ہوتی ہے ،  لیکن  یہ فعل گناہ کبیرہ ہے ۔ ایسے فرد کو صدق دل سے توبہ واستغفار کرنا چاہیے ۔

2۔سالی  (یعنی: بیوی کی بہن) چوں کہ نا محرم ہوتی ہے؛  اس  لیے اس  سے پردہ کرنا لازم ہے، سالی کے ساتھ بلا ضرورت بات چیت اور بغیر شہوت کے بھی مصافحہ کرنا جائز نہیں ہے ۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكوة المصابيح ميں ہے :

"وقال الطيبي - رحمه الله تعالى: ‌المحرم ‌من ‌النساء التي يجوز له النظر إليها والمسافرة معها كل من حرم نكاحها على التأبيد بسبب مباح لحرمتها فخرجت بالتأبيد أخت الزوجة وعمتها وخالتها."

(كتاب المناسك، ج:5، ص:1744، ط:دارالفكر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ثم المس إنما يوجب حرمة المصاهرة إذا لم يكن بينهما ثوب، أما إذا كان بينهما ثوب فإن كان صفيقا لا يجد الماس حرارة الممسوس لا تثبت حرمة المصاهرة وإن انتشرت آلته بذلك وإن كان رقيقا بحيث تصل حرارة الممسوس إلى يده تثبت، كذا في الذخيرة.......

ووجود الشهوة من أحدهما يكفي وشرطه أن لا ينزل حتى لو أنزل عند المس أو النظر لم تثبت به حرمة المصاهرة، كذا في التبيين. قال الصدر الشهيد وعليه الفتوى، كذا في الشمني شرح النقاية. ولو مس فأنزل لم تثبت به حرمة المصاهرة في الصحيح؛ لأنه تبين بالإنزال أنه غير داع إلى الوطء، كذا في الكافي."

(كتاب النكاح، الباب الثالث، القسم الثاني المحرمات بالصهرية، ج:1، ص:275،  ط:المكتبة الرشيديه كوئته)

فتاوی شامی میں ہے:

"أسباب التحريم أنواع: قرابة، مصاهرة، رضاع.

(قوله: مصاهرة) كفروع نسائه المدخول بهن، وإن نزلن، وأمهات الزوجات وجداتهن بعقد صحيح، وإن علون، وإن لم يدخل بالزوجات وتحرم موطوءات آبائه وأجداده، وإن علوا ولو بزنى والمعقودات لهم عليهن بعقد صحيح، وموطوءات أبنائه وآباء أولاده، وإن سفلوا ولو بزنى والمعقودات لهم عليهن بعقد صحيح فتح، وكذا المقبلات أو الملموسات بشهوة لأصوله أو فروعه أو من قبل أو لمس أصولهن أو فروعهن."

(كتاب النكاح، فصل في المحرمات، ج:3، ص:28، ط: سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وتثبت بالوطء حلالا كان أو عن شبهة أو زنا، كذا في فتاوى قاضي خان. فمن زنى بامرأة حرمت عليه أمها وإن علت وابنتها وإن سفلت، وكذا تحرم المزني بها على آباء الزاني وأجداده وإن علوا وأبنائه وإن سفلوا، كذا في فتح القدير...وكما تثبت هذه الحرمة بالوطء تثبت بالمس والتقبيل والنظر إلى الفرج بشهوة، كذا في الذخيرة.سواء كان بنكاح أو ملك أو فجور عندنا، كذا في الملتقط....والمعتبر النظر إلى الفرج الداخل هكذا في الهداية. وعليه الفتوى هكذا في الظهيرية وجواهر الأخلاطي."

(کتا ب النکاح،الباب الثالث في بيان المحرمات، القسم الثاني المحرمات بالصهریة ج:1، ص:274،ط: دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"وطئ أخت امرأته لاتحرم عليه امرأته."

(كتاب النكاح، فصل في المحرمات، ج:3، ص:34، ط:سعید) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144605101402

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں