ایک آدمی کبھی کبھار اپنے ماموں کے گھر جایا کرتے تھے۔ بعض اوقات ممانی کسی بچے کو دودھ پلا رہی ہوتی تھی، اور وہ انہیں اسی حالت میں دیکھ لیتے۔ ایک مرتبہ انہوں نے خواب میں دیکھا کہ ممانی انہیں بھی دودھ پلا رہی ہے۔ اس خواب کے بعد انہوں نے ماموں کے گھر جانا بند کر دیا۔ نہ آنے پر جب ممانی نے شکوہ کیا تو انہوں نے وجہ بیان کی۔ اس پر ممانی نے پہلے کہا کہ "جی ہاں، میں نے دودھ پلایا تھا" اور ساتھ یہ بھی کہا کہ اس وقت فلاں عورتیں وہاں موجود تھیں، جن میں سے دو وفات پا چکی ہیں اور ایک زندہ ہے۔ جب اس زندہ عورت سے پوچھا گیا تو اس نے تردد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "مجھے معلوم نہیں کہ ممانی نے دودھ پلایا تھا یا نہیں"۔بعد میں ممانی نے بھی تردد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "مجھے یاد نہیں کہ میں نے دودھ پلایا یا نہیں، لیکن اتنا ضرور ہے کہ جب تم ایک یا ڈیڑھ سال کے تھے اور رو رہے تھے تو میں نے تمہیں اپنی طرف کھینچا اور پستان سے لگایا۔ اب مجھے یاد نہیں کہ اس وقت دودھ پلایا تھا یا نہیں۔" پہلے تو ممانی نے تصدیق کی تھی کہ دودھ پلایا ہے، لیکن اب وہ شک ظاہر کر رہی ہیں اور کہہ رہی ہیں کہ "مجھے معلوم نہیں، شاید صرف اپنی طرف کھینچا تھا۔"
اب سوال یہ ہے کہ اس صورت میں شرعی حکم کیا ہوگا، جبکہ آگے ان کا رشتہ طے کرنے کا ارادہ بھی ہے؟ یعنی، ممانی اپنی بیٹی کا نکاح اس لڑکے سے کرنا چاہتی ہے، یا پھر اس لڑکے کی بہنوں کا نکاح اپنے بیٹوں سے کرنا چاہتی ہے۔ یہ واقعہ تقریباً 25 سال پہلے کا ہے، جب ممانی اپنی پہلی اولاد (وہ بیٹی، جس کی وجہ سے ان کا دودھ آیا تھا) کو دودھ پلا رہی تھی، اور (شک ہے کہ) ممکنہ طور پر اس لڑکے کو بھی دودھ پلایا تھا۔
حرمتِ رضاعت یا تو شرعی گواہی سے ثابت ہوتی ہے، جو دو عادل مرد یا ایک عادل مرد اور دو عورتیں ہوں، یا اصرار کےساتھ اقرار سے۔ لیکن صورتِ مسئولہ میں نہ شرعی گواہ موجود ہیں اور نہ اصرارکے ساتھ اقرار پایاگیا ہے۔ محض ایک عورت کے کہنے سے حرمتِ رضاعت ثابت نہیں ہوتی، خصوصاً جب خود اس کو بھی تردد ہو۔ لہٰذا، صورتِ مسئولہ میں حرمتِ رضاعت ثابت نہیں ہوتی، جس کی بنا پر اس شخص کا اپنی ممانی سے پردہ ضروری ہے اور اس کی بیٹیوں سے نکاح بھی جائز ہے۔نیز اس شخص کی بہنوں کا نکاح ممانی کے بیٹوں کے ساتھ ہر حال میں جائز ہے، چاہے حرمتِ رضاعت اس شخص اور ممانی کے درمیان ثابت ہو یا نہ ہو۔
الدر مع الرد میں ہے:
"(و) الرضاع (حجته حجة المال) وهي شهادة عدلين أو عدل وعدلتان.
(قوله حجته إلخ) أي دليل إثباته وهذا عند الإنكار لأنه يثبت بالإقرار مع الإصرار.
(کتاب النکاح،باب الرضاع،ج:3،ص:224،ط:..سعید)
"(إن أقرت) المرأة بذلك (ثم أكذبت نفسها وقالت: أخطأت وتزوجها) (جاز كما لو تزوجها قبل أن تكذب نفسها) وإن أصرت عليه لأن الحرمة ليست إليها، قالوا: وبه يفتى في جميع الوجوه بزازية.
(قوله في جميع الوجوه) أي سواء أقرت قبل العقد أو لا، وسواء أصرت عليه أو لا، بخلاف الرجل فإن إصراره مثبت للحرمة كما علمت."
(کتاب النکاح،باب الرضاع،ج:3،ص:223،ط:..سعید)
"(وتحل أخت أخيه رضاعا) يصح اتصاله بالمضاف كأن يكون له أخ نسبي له أخت رضاعية، وبالمضاف إليه كأن يكون لأخيه رضاعا أخت نسبا وبهما وهو ظاهر."
(کتاب النکاح،باب الرضاع،ج:3،ص217،ط:..سعید)
"(قوله: وفي البزازية إلخ) ...، وتمام عبارتها هكذا: ونص في الرضاع على أنها إذا قالت هذا ابني رضاعا وأصرت عليه له أن يتزوجها لأن الحرمة ليست إليها."
(کتاب النکاح،باب الرجعة،ج:3،ص:420،ط:..سعید)
فقط وللہ اعلم
فتوی نمبر : 144608101704
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن