بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا شرم گاہ کو ہاتھ لگانے سے ہاتھ ناپاک ہوجاتا ہے؟


سوال

  کیا خشک شرم گاہ (آلہ تناسل ہو یا پیچھے کی شرم گاہ)،  پاک ہوتی ہے یا نہیں؟ اور اگر ایسی صورت میں ہاتھ لگ جائے تو ہاتھ پاک ہوتا ہے یا نا پاک؟ جب کہ شرم گاہ پر کسی قسم کی نجاست نہ ہو۔

جواب

شرم گاہ (خواہ آگے کی ہو، یا پیچھے کی) بذاتِ خود پاک ہوتی ہے؛ کیوں کہ یہ بھی انسان کے بدن کا ہی ایک حصہ ہے، لہٰذا جب تک اس پر کوئی نجاست نہ لگی ہو، اس پر ہاتھ لگ جانے سے ہاتھ ناپاک نہیں ہوتا، تاہم مستحب یہ ہے کہ اس کے بعد ہاتھوں  کو دھو لیا جائے۔

مسند احمد میں ہے:

"حدثنا حماد بن خالد، قال: حدثنا أيوب بن عتبة، عن قيس بن طلق، عن أبيه قال: سأل رجل رسول الله صلى الله عليه وسلم أيتوضأ أحدنا إذا مس ذكره؟ قال: "إنما هو بضعة منك أو جسدك"."

(مسند المدنيين، ‌‌حديث طلق بن علي، ٢٦/ ٢١٤، رقم الحديث: ١٦٢٨٦، ط: مؤسسة الرسالة)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(لا) ينقضه (مس ذكر) لكن يغسل يده ندبا.

وقال عليه في الرد: (قوله: لكن يغسل يده ندبا) لحديث «من مس ذكره فليتوضأ» أي ليغسل يده جمعا بينه وبين قوله - صلى الله عليه وسلم - «هل هو إلا بضعة منك، حين سئل عن الرجل يمس ذكره بعدما يتوضأ» وفي رواية في الصلاة، أخرجه الطحاوي وأصحاب السنن إلا ابن ماجه وصححه ابن حبان. وقال الترمذي: إنه أحسن شيء يروى في هذا الباب وأصح، ويشهد له ما أخرجه الطحاوي عن مصعب بن سعد قال: كنت آخذا على أبي المصحف فاحتككت فأصبت فرجي فقال: أصبت فرجك؟ فقلت: نعم، فقال: قم فاغسل يدك وقد ورد تفسير الوضوء بمثله في الوضوء مما مسته النار، وتمامه في الحلية والبحر.

أقول: ومفاده استحباب غسل اليد مطلقا كما هو مفاد إطلاق المبسوط خلافا لما استفاده في البحر من عبارة البدائع من تقييده بما إذا كان مستنجيا بالحجر كما أوضحه في النهر. مطلب في ندب مراعاة الخلاف إذا لم يرتكب مكروه مذهبه.

(قوله: لكن يندب إلخ) قال في النهر: إلا أن مراتب الندب تختلف بحسب قوة دليل المخالف وضعفه."

(كتاب الطهارة، ١/ ١٤٧، ط: سعيد)

البحر الرائق میں ہے:

"ويستحب لمن مس ذكره أن يغسل يده صرح به صاحب المبسوط، وهذا أحد ما حمل به حديث بسرة فقال أو المراد بالوضوء غسل اليد استحبابا كما في قوله الوضوء قبل الطعام ينفي الفقر وبعده ينفي اللمم لكن في البدائع ما يفيد تقييد الاستحباب بما إذا كان الاستنجاء بالأحجار دون الماء، وهو حسن كما لا يخفى."

(كتاب الطهارة، باب نواقض الوضو، ١/ ٤٦، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411102494

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں