بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1446ھ 25 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

کیا شوہر کا مکان بیوی کو ہبہ کرنے کے بعد اس میں رہنے سے ہبہ تام ہوجائے گا؟


سوال

بشیر احمد نے اپنی زندگی میں اپنی جائیداد اپنی بیوی ریاض بیگم کے نام کر دی تھی، کاغذات اس کے حوالے کیے تھے، لیکن اپنی حیات تک اس گھر میں اپنی زوجہ کے ساتھ رہ رہے تھے۔ بعد ازاں، بشیر احمد کا انتقال ہوگیا،   بشیر احمد  نے ورثا میں ایک بیوہ ، ایک بیٹی ، اور   6بھائی ، بہنیں  چھوڑیں  (کچھ گاؤں میں رہتے ہیں ، کچھ یہاں باقی یہ کنفرم نہیں ہے کہ بھائی کتنے ہیں اور بہنیں کتنی ہیں اور ہمیں انکی میراث معلوم نہیں کرنی بلکہ صرف یہی سوال پوچھنا ہے جو یہاں مذکور ہے)،اس  کے بعد، ریاض بیگم نے اس جائیداد کو گلشن نسیم کو 30 لاکھ 80 ہزار روپے میں فروخت کر دیا اور مکان کا قبضہ اور اصل کاغذات بھی اس کے حوالے کر دیے، اس وقت مرحوم کا بڑا بھائی موجود تھا اس کی موجودگی میں یہ معاملہ طے پایا تھا، اس وقت ان کو اعتراض نہیں تھا۔ اب بشیر احمد کے بھائی اور بہنیں دعویٰ کر رہے ہیں کہ بشیر احمد کے انتقال کے وقت اس جائیداد میں ان کا بھی حصہ تھا۔

کیا بشیر احمد کے ورثاء (بھائی بہن) کا یہ مطالبہ شرعی طور پر درست ہے؟

جواب

واضح رہے کہ کسی بھی چیز کا ہبہ درست ہونے کے لیے مالکانہ اختیارات کے ساتھ قبضہ دینا ضروری ہے اور مکان  کا قبضہ تام ہونے کا طریقہ یہ ہے کہ  واہب ( مالک) اپنا سامان اُس میں سے نکال دے اور خود بھی کچھ  وقت کے لیے اس  مکان  سے نکل جائے، اور موہوب لہ کو اُس کا  مکمل قبضہ دے دے،  ليكن  اگر ہبہ کرنے والا خود یا اس کا سامان موجود ہو اور وہ صرف مکان کسی کو گفٹ کردے تو  یہ گفٹ مکمل نہیں ہوتا اور اصل مالک ہی کی ملکیت میں رہتا ہے۔

 صورتِ مسئولہ میں شوہر نے جو مکان اپنی بیوی کے نام کیا تھا وہ اس کی طرف سے  ہبہ (gift) تھا،چونکہ اُس مکان  کا مکمل قبضہ اور تصرف نہیں دیا بلکہ   بوقت ہبہ وہ خود بھی اُس مکان میں رہائش پذیر تھے تا حیات   رہتے تھےتو بیوی کے حق میں یہ ہبہ ( گفٹ) مكمل نہیں ہوا؛ اس لیے یہ مکان بدستور شوہر  کی ملکیت میں رہا ، اور اُس مکان کو شرعی  قانونِ وراثت کے مطابق تمام ورثاء میں تقسیم کرنا ضروری تھا ،لہذا  بیوہ  ریاض بیگم کا دیگر ورثا کی اجازت کے بغیر مکان کو  فروخت کرنا صحیح نہیں تھا، اب دیگر ورثا کو  اپنے حصہ کی بیع میں اختیار ہے چاہیں تو  اس بیع کی اجازت دے دیں اور بیوہ ریاض سے اپنے حصہ کی قیمت لے لیں  اور چاہیں تو بیع ختم کر کےاپنا اپنا حصہ گھر میں سے وصول کر لیں ۔

الدر المختار مع الرد میں ہے: 

"و) شرائط صحتها (في الموهوب أن يكون مقبوضا غير مشاع مميزا غير مشغول) كما سيتضح."

(کتاب الهبة، ج:5، ص:688، ط:سعید)

المحيط البرهاني  میں ہے:

"وعن ‌أبي ‌يوسف ‌لا ‌يجوز ‌للرجل ‌أن ‌يهب ‌لامرأته، ‌أو ‌أن ‌تهب ‌لزوجها ‌ولأجنبي ‌داراً ‌وهما ‌فيها ‌ساكنان، ‌كذلك ‌الهبة ‌للولد ‌الكبير؛ ‌لأن ‌الواهب ‌إذا ‌كان ‌في ‌الدار ‌فيده ‌بائن ‌على ‌الدار، ‌وذلك ‌يمنع ‌تمام ‌يد ‌الموهوب ‌له."

(کتاب الهبة، ‌‌الفصل السادس في الهبة من الصغير،ج:6، ص:251، ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے: 

"وفي المنتقى عن أبي يوسف - رحمه الله تعالى - ‌لا ‌يجوز ‌للرجل ‌أن ‌يهب ‌لامرأته ‌ولا ‌أن ‌تهب ‌لزوجها ‌أو ‌لأجنبي ‌دارا ‌وهما ‌فيها ‌ساكنان، ‌وكذلك ‌للولد ‌الكبير، ‌كذا ‌في ‌الذخيرة."

(کتاب الهبة، الباب الثاني فيما يجوز من الهبة وما لا يجوز، ج:4، ص:380، ط:دار الفکر)

الفتاوى التاتارخانیة  میں ہے:

"وفي المنتقى عن أبي يوسف: لايجوز للرجل أن يهب لامرأته وأن تهب لزوجها أو لأجنبي دارًا وهما فيها ساكنان، وكذلك الهبة للولد الكبير؛ لأن يد الواهب ثابتة علي الدار".

(کتاب الهبة،  فیما یجوز من الھبة وما لا یجوز، نوع منه،  ج:14، ص:431، ط: زکریا، دیوبند، دهلی)

الدر المختار مع الرد میں ہے:

"(وقف بيع مال الغير) لو الغير بالغا عاقلا، فلو صغيرا أو مجنونا لم ينعقد أصلا كما في الزواهر معزيا للحاوي وهذا إن باعه على أنه (لمالكه) أما لو باعه على أنه لنفسه۔۔فالبيع باطل....(وحكمه) أي بيع الفضولي لو له مجيز حال وقوعه كما مر (قبول الإجازة) من المالك (إذا كان البائع والمشتري والمبيع قائما)...و) حكمه أيضا (أخذ) المالك (الثمن أو طلبه) من المشتري ويكون إجازة عمادية،....وقوله لا أجيز رد له) أي للبيع الموقوف، فلو أجازه بعده لم يجز؛ لأن المفسوخ لا يجاز."

اس پرعلامہ شامی لکھتے ہیں:

"(قوله: وهذا) أي التوقف المفهوم من قول المصنف وقف. (قوله: على أنه لمالكه إلخ) أي على أن البيع لأجل مالكه لا لأجل نفسه، وهذا مأخوذ من البحر حيث قال: ولو قال المصنف باع ملك غيره لمالكه لكان أولى؛ لأنه لو باعه لنفسه لم ينعقد أصلا كما في البدائع. اهـ. لكن صاحب المتن قال في منحه: أقول يشكل على ما نقله شيخنا على البدائع ما قالوه من أن المبيع إذا استحق لا ينفسخ العقد في ظاهر الرواية بقضاء القاضي بالاستحقاق وللمستحق إجازته. وجه الإشكال أن البائع باع لنفسه لا للمالك الذي هو المستحق مع أنه توقف على الإجازة، ويشكل عليه بيع الغاصب فإنه يتوقف على الإجازة، فالظاهر ضعف ما في البدائع، فلا ينبغي أن يعول عليه لمخالفته لفروع المذهب اهـ. وذكر نحوه الخير الرملي ثم استظهر أن ما في البدائع رواية خارجة عن ظاهر الرواية.

أقول: يظهر لي أن ما في البدائع لا إشكال فيه بل هو صحيح؛ لأن قول البدائع لو باعه لنفسه لم ينعقد أصلا معناه لو باعه من نفسه فاللام بمعنى من، فهو المسألة الثانية من المسائل الخمس، وحينئذ فمراد البدائع أن الموقوف ما باعه لغيره، أما لو باعه لنفسه لم ينعقد أصلا، فالخلل إنما جاء مما فهمه صاحب البحر من أن اللام للتعليل، وأنه احتراز عما إذا باعه لأجل مالكه، ولله در أخيه صاحب النهر حيث وقف على حقيقة الصواب، فقال عند قول الكنز: ومن باع ملك غيره يعني لغيره، أما إذا باع لنفسه لم ينعقد كذا في البدائع. اهـ. لكنه لو عبر بمن بدل اللام لكان أبعد عن الإيهام، وعلى كل فهو عين ما ظهر لي، والحمد الله رب العالمين."

(کتاب البیوع، فصل فی الفضولی، ج:5، ص:107، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144609100944

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں