کیا تجوید سیکھنا فرض کفایہ ہے ؟
صورت مسئولہ میں جس طرح دین کے ضروری علم کا جاننا فرض عین ہے اور اس سے زائد کا علمحاصل کرنا فرض کفایہ ہے، اسی طرح علم تجوید جس سے حروف کی درست ادائیگی کا سلیقہ پیدا ہو، اور لحن جلی سے بچا جا سکے، تاکہ قرآن کے معانی میں بگاڑ لازم نہ آئے، فرض عین ہے، اور البتہ علم تجوید کی تمام مباحث پر عبور حاصل کرنا، فرض کفایہ ہے۔
فتاویٰ رحیمیہ میں ہے :
"تجوید کا حاصل کرنا اور قرآن کو تجوید کے ساتھ پڑھنا ضروری ہے ،جس نے بے قاعدہ اور خلاف تجوید پڑھا وہ گنہگار ہے۔"
(کتاب التفسیر والحدیث ،ج:3 ،ص:31 ،ط:دارالاشاعت)
امدادالفتاویٰ میں ہے :
تحقیق وجوب علمِ تجوید :
"اس علم کے تین شعبے ہیں تصحیح حروف بقدر امکان و رعایت وقوف بایں معنی کہ جہاں وقف کرنے سے معنی میں فساد و اختلال ہو وہاں وقف نہ کرے، اور اضطرار میں عفو ہے لیکن ایک دو کلمہ کا اعادہ کر لینا احوط ہے یہ دونوں امر تو واجب ہیں علی التعین ،اور جس کو صحیح کرنے پر بھی حصول سے یاس ہو جاوے وہ معذور ہے، اور ایک شعبہ اختلاف قرات ہے یہ مجموع امت پر واجب علی الکفایہ ہے اگر بعض جاننے والے موجود ہوں یا بعض ایک قرات کے حافظ ہوں، بعض دوسری قرات کے تو یہ واجب سب کے ذمے سے ساقط ہو جاتا ہے، ایک شعبہ ادغام و تفخیم و اظہار وغیرہا کی رعایت کاہے یہ مستحب ہے ۔"
(کتاب الصلوۃ،باب القرآۃ، تحقیق وجوب علم تجوید وقراء ت ،ج:1،ص:252 ،ط:دارالعلوم کراچی)
مقدمۃ الجزری میں ہے :
"والأخذ بالتجويد حتم لازم … من لم يصحح القران آثم ... - لأنه به الإله أنزلا … وهكذا منه إلينا وصلا ."
(باب التجويد ،62 ،ط:بيروت)
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے :
"وعن حذيفة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (اقرءوا القرآن بلحون العرب وأصواتها) عطف تفسيري، أي: بلا تكلف النغمات من المدات والسكنات في الحركات والسكنات بحكم الطبيعة الساذجة عن التكلفات (وإياكم ولحون أهل العشق): أي: أصحاب الفسق (ولحون أهل الكتابين)، أي: أرباب الكفر من اليهود والنصارى فإن من تشبه بقوم فهو منهم، قال الطيبي: اللحون جمع لحن وهو التطريب وترجيع الصوت، قال صاحب جامع الأصول: ويشبه أن يكون ما يفعله القراء في زماننا بين يدي الوعاظ من اللحون العجمية في القرآن ما نهى عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم (وسيجيء) : أي سيأتي كما في نسخة (بعدي قوم يرجعون) بالتشديد، أي يرددون (بالقرآن) : أي يحرفونه (ترجيع الغناء) بالكسر والمد بمعنى النغمة (والنوح) بفتح النون من النياحة، والمراد ترديدا مخرجا لها عن موضعها إذا لم يأت تلحينهم على أصول النغمات إلا بذلك، قال الطيبي: الترجيع في القرآن ترديد الحروف كقراءة النصارى (لا يجاوز) : أي قراءتهم (حناجرهم) : أي طوقهم، وهو كناية عن عدم القبول والرد عن مقام الوصول، والتجاوز يحتمل الصعود والحدور، قال الطيبي: أي لايصعد عنها إلى السماء، ولا يقبله الله منهم، ولا يتحدر عنها إلى قلوبهم ليدبروا آياته ويعملوا بمقتضاه (مفتونة) بالنصب على الحالية، ويرفع على أنه صفة أخرى لقوم، واقتصر عليه الطيبي: أي مبتلى بحب الدنيا وتحسين الناس لهم (قلوبهم) بالرفع على الفاعلية، وعطف عليه قوله (وقلوب الذين يعجبهم شأنهم) بالهمز ويعدل: أي يستحسنون قراءتهم، ويستمعون تلاوتهم (رواه البيهقي في شعب الإيمان، ورزين في كتابه) وكذا الطبراني".
(كتاب فضائل القرآن، ج:4، ص:1505، ط: دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144607102348
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن