بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 ذو القعدة 1446ھ 29 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

بیعت، مراقبہ اور اصلاحی مجالس کا حکم


سوال

(۱): اہلِ نسبت علمائے کرام وبزرگانِ دین سے بیعت کرنے کا کیا حکم ہے؟ کیا بیعت کرنا بدعت ہے؟

(۲): کیا تصوف کے سلاسلِ اربعہ بدعت ہیں؟ اور حدیثـ  ”ماأنا عليہ وأصحابي” کے خلاف ہیں؟

(۳): مشائخ اپنے مریدین کو اصلاح کے لیے جو معمولات دیتے ہیں، مثلاً روزانہ اتنی بار استغفار پڑھیں وغیرہ، تو کیا یہ بدعت ہیں؟

(۴):مراقبہ کے بارے میں کیا حکم ہے؟ کیا مراقبہ  کرنا کروانا بدعت، اور حدیث "ماأنا عليہ وأصحابي" کے خلاف ہے؟

(۵): دورانِ مراقبہ یکسوئی کے لیے آنکھیں بند کرنا، لائٹ وغیرہ بندکروانا، جسے ضروری بھی نہیں سمجھا جاتا، فقط یکسوئی مقصود ہوتی ہے، تو کیا ایسا کرنا "ماأنا عليه وأصحابي"  کے خلاف ہے؟

(۶): جماعت کے بعض ساتھیوں کا کہنا ہے کہ دین کا کام صرف تبلیغ میں جانا اور لوگوں کو دعوت دینا ہے، ان اصلاحی مجالس اور مراقبوں کا کوئی فائدہ نہیں، اس کا کیا حکم ہے؟ کیا یہ بات درست ہے؟

(۷): خیر القرون، اکابرین علمائے دیوبند واکابرینِ تبلیغ کے ہاں خانقاہی نظام، بیعت اور مراقبہ یا اصلاحی مجالس کا کوئی تصور یا ثبوت ہے، یا وہ بھی اسے بدعت سمجھتے تھے؟ اگر اُن کے ہاں اس کا تصور تھا، تو کچھ کے نام ضرور ارشاد فرمائیں۔

جواب

(۱): اپنے نفس کی اصلاح کے لیے متبعِ شرع اور اہلِ نسبت علمائے کرام یا بزرگانِ دین سے بیعت کرنا بدعت نہیں ہے، بلکہ مستحب ہے؛ کیوں کہ بیعت کا مطلب ہوتا ہے شیخ کے ساتھ اتباعِ شریعت کا التزام کرنے کا عہد وپیمان کرنا، اس قسم کاعہد وپیمان‘ قرآن وسنت اور سلفِ صالحین کے عمل سے ثابت ہے، تاہم فرض، واجب یا سنتِ مؤکدہ نہیں ہے۔ ہاں اگر کسی کی اصلاح اس کے بغیر ممکن نہ ہو، تو پھرذریعہ کے درجہ میں کسی سلسلے میں وابستہ ہونا لازم ہوگا؛ تاکہ قیامت کے دن اللہ کے پاس قلبِ سلیم لے کر جائے۔

(۲)،(۳) ،(۴)و(۵): تصوف کے سلاسلِ اربعہ، مشائخ کے اپنے مریدین کو معمولات اور مراقبہ کروانا بدعتِ مذمومہ نہیں ہے، اور مراقبہ میں یکسوئی کے حصول کے لیے آنکھیں بند کرنا یا اندھیرا کرنا بھی جائز ہے، یہ سب اُمور حدیث  "ماأنا عليه وأصحابي" کے خلاف نہیں ہیں۔

عبادات کا کمال یہ ہے کہ توجہ صرف اور صرف اللہ کی طرف ہو، اس کو احسان کہتے ہیں، اس کی تربیت کے لیے ذکر واذکار اور مراقبہ وغیرہ کروائے جاتے ہیں۔

(۶) و(۷): آپ کے مذکورہ ساتھیوں کا یہ قول درست نہیں ہے، تصوف‘ شریعت سے کوئی علیحدہ چیز نہیں ہے، شریعت کے احکام عبادات، معاملات واخلاق  کی اصلاح اور ان میں جان پیدا کرنے کا نام تصوف ہے۔ قرونِ اولیٰ سے لے کر اب تک جمہور علمائے امت اور اہلِ حق‘ دین کے اس شعبہ کے ساتھ وابستہ رہے ہیں۔

تفصیل کے  لیے حافظ ابن  قیم الجوزیہ  کی تصنیف : "مدارج السالكين بين منازل إياك نعبد وإياك نستعين "، شیخ الحدیث مولانا زکریا کاندھلوی صاحبؒ کی کتاب آپ بیتی کی فصل نمبر ۱۷(تصوف کا بیان)، اور مولانا سید زوّار حسین شاہ صاحب رحمہ اللہ کی کتاب "عمدۃ السلوک" کا مطالعہ کرلیا جائے۔

قرآن پاک میں ارشاد ہے:

"يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَى أَنْ لا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئاً وَلا يَسْرِقْنَ وَلا يَزْنِينَ وَلا يَقْتُلْنَ أَوْلادَهُنَّ وَلا يَأْتِينَ بِبُهْتَانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ"

(الممتحنة: ١٢)

صحیح بخاری میں ہے:

"حدثنا مسدد قال: حدثنا يحيى، عن إسماعيل قال: حدثني قيس بن أبي حازم، عن جرير بن عبد الله قال: بايعت رسول الله صلى الله عليه وسلم على إقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، والنصح لكل مسلم."

(‌‌صحيح البخاري، كتاب الإيمان، باب قول النبي صلى الله عليه وسلم الدين النصيحة  ...الخ، ١/ ٣٢، ط: دار ابن كثير)

وفيه أيضاً:

"حدثنا عبد الله بن يوسف: أخبرنا مالك، عن عبد الله بن دينار، عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما قال:كنا إذا ‌بايعنا رسول الله صلى الله عليه وسلم على السمع والطاعة يقول لنا: (فيما استطعتم)."

(كتاب الأحكام، باب: كيف يبايع الإمام الناس، ٦/ ٦٣٣، ط: دار ابن كثير)

حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ فرماتے ہیں:

"میں فتویٰ تو یہی دیتا ہوں کہ بیعت ہونا فرض نہیں ہے، بیعت سنتِ مؤکدہ بھی نہیں ہے، اصلاح فرض ہے، لیکن بیعت برکت کی چیز ہے۔"

(راہ سلوک کے آداب اور حقوق شیخ، ص:۳۰، ط : ادارہ تالیفات اختریہ)

"تزکیہ فعلِ متعدی ہے، جس سے معلوم ہوا کہ یہ ایسا فعل نہیں جو صرف اپنے فاعل پر تمام ہو جیسا کہ فعلِ لازم کا خاصہ ہے، بلکہ ایک مُزَكِّي اور  مُرَبِّي کی ضرورت ہے جو تزکیہ اور تربیت کرے، پس اپنی اصلاح کوئی انسان خود نہیں کرسکتا، کسی مُصلِح کی اشد ضرورت ہے اور چوں کہ فرض کا مقدمہ فرض ہوتا ہے، اس لیے مُصلِح تلاش کرنا اور اس کی صحبت حاصل کرنا بھی فرض ہوا۔"

(اصلاحِ اخلاق، ص:۶، ط: خانقاہ امدادیہ اشرفیہ)

حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

"تمام علماء و فقہاء کا اس پر اتفاق رہا ہے کہ رذائل سے بچنا اور فضائل کو حاصل کرنا ہر عاقل، بالغ پر فرض ہے، یہی فریضہ ہے جس کو اصلاحِ نفس یا تزکیہ نفس اور تزکیہ اخلاق یا تہذیبِ اخلاق کہا جاتا ہے، اور یہی تصوف کا حاصل و مقصود ہے۔

جس طرح ہر مرد و عورت پر اپنے اپنے حالات و مشاغل کی حد تک اُن کے فقہی مسائل جاننا فرض ہے اور پورے فقہ کے مسائل میں بصیرت و مہارت پیدا کرنا اور مفتی بننا سب پر فرض نہیں بلکہ فرضِ کفایہ ہے، اسی طرح جو اَخلاقِ حمیدہ کسی میں موجود نہیں، انہیں حاصل کرنا اور جو رَذائل اس کے نفس میں چُھپے ہوئے ہیں اُن سے بچنا، تصوف کے جتنے علم پر موقوف ہے، اس علم کا حاصل کرنا فرضِ عین ہے اور پورے علمِ تصوف میں بصیرت و مہارت پیدا کرنا کہ دوسروں کی تربیت بھی کرسکے، یہ فرضِ کفایہ ہے۔

جس طرح قرآن و سنت سے فقہی مسائل و احکام نکالنا اور حسبِ حال شرعی حکم معلوم کرنا ہر ایک کے بس کا کام نہیں، بلکہ راہ نمائی کے لیے استاذ یا فقیہ اور مفتی کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے، اسی طرح باطنی اخلاق کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنا ایک نازک اور قدرے مشکل کام ہے، جس میں بسا اوقات مجاہَدوں، ریاضتوں اور طرح طرح کے نفسیاتی علاجوں کی ضرورت پیش آتی ہے، اور کسی ماہر کی رہنمائی کے بغیر چارہ کار نہیں ہوتا، اس نفسیاتی علاج اور رہنمائی کا فریضہ شیخ و مرشد انجام دیتا ہے۔ اسی لیے ہر عاقل و بالغ مرد و عورت کو اپنے تزکیہ اخلاق کے لیے ایسے شیخ و مرشد کا انتخاب کرنا پڑتا ہے جو قرآن و سنت کا متبع ہو، اور باطنی اخلاق کی تربیت کسی مستند شیخ کی صحبت میں رہ کر حاصل کرچکا ہو۔

بیعت سنت ہے، فرض و واجب نہیں: بیعت کی حقیقت یہ ہے کہ وہ مرشد اور اس کے شاگرد (مرید) کے درمیان ایک معاہدہ ہوتا ہے، مرشد یہ وعدہ کرتا ہے کہ وہ اس کو اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق زندگی گزارنا سکھائے گا، اور مرید وعدہ کرتا ہے کہ مرشد جو بتلائے گا اس پر عمل ضرور کرے گا، یہ بیعت فرض و واجب تو نہیں، اس کے بغیر بھی مرشد کی رہنمائی میں اصلاحِ نفس کا مقصد حاصل ہوسکتا ہے، لیکن بیعت چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سنت ہے اور معاہدہ کی وجہ سے فریقین کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس بھی قوی رہتا ہے، اس لیے بیعت سے اس مقصد کے حصول میں بہت برکت اور آسانی ہوجاتی ہے۔"

(امداد الاحکام، ج:۱، ص:۳۹، ۴۷، ۴۸، ط : مکتبہ دارالعلوم کراچی)

عالم ربانی حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:

"بیعت سنت ہے، واجب نہیں، اس واسطے کہ اصحاب رضی اللہ عنہم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے بیعت کی اور اُس کے سبب سے حق تعالیٰ کی نزدیکی چاہی اور کسی دلیلِ شرعی نے تارکِ بیعت کے گنہگار ہونے پر دلالت نہ کی اور ائمہ دین نے تارکِ بیعت پر انکار نہ کیا، تو یہ عدمِ انکار گویا اجماع ہوگیا اس پر کہ وہ واجب نہیں۔

سنتُ اللہ یوں جاری ہے کہ امور خفیہ جو نفوس میں پوشیدہ ہیں اُن کا ضبط افعال اور اقوال ظاہری سے ہو اور اقوال قائم مقام ہوں امورِ قلبیہ کے، چنانچہ تصدیق اللہ اور اُس کے رسول اور قیامت کی امر مخفی ہے، تو اقرار ایمان کا بجائے تصدیقِ قلبی کے قائم مقام کیا گیا۔ اور چنانچہ رضامندی بائع اور مشتری کی قیمت اور مبیع کے دینے میں امر مخفی پوشیدہ ہے تو ایجاب اور قبول کو قائم مقام رضائے مخفی کے کردیا۔ سو اسی طرح توبہ اور عزم کرنا ترک معاصی کا اور تقویٰ کی رسی کو مضبوط پکڑنا امر مخفی اور پوشیدہ ہے، تو بیعت کو اُس کے قائم مقام کردیا۔"

(شفاء العلیل ترجمہ القول الجمیل، ص:۱۸، ۱۹، ط : ایچ ایم سعید)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(ومبتدع) أي صاحب بدعة وهي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول لا بمعاندة بل بنوع شبهة.

و قال عليه في الرد: (قوله وهي اعتقاد إلخ) عزاه هذا التعريف في هامش الخزائن إلى الحافظ ابن حجر في شرح النخبة، ولا يخفى أن الاعتقاد يشمل ما كان معه عمل أو لا، فإن من تدين بعمل لا بد أن يعتقده كمسح الشيعة على الرجلين وإنكارهم المسح على الخفين وذلك، وحينئذ فيساوي تعريف الشمني لها بأنها ما أحدث على خلاف الحق المتلقى عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - من علم أو عمل أو حال بنوع شبهة واستحسان، وجعل دينا قويما وصراطا مستقيما اهـ فافهم (قوله لا بمعاندة) أما لو كان معاندا للأدلة القطعية التي لا شبهة له فيها أصلا كإنكار الحشر أو حدوث العالم ونحو ذلك، فهو كافر قطعا (قوله بل بنوع شبهة) أي وإن كانت فاسدة كقول منكر الرؤية بأنه تعالى لا يرى لجلاله وعظمته."

(كتاب الصلاة، باب الإمامة، ١٥٦١، ط: سعيد)

زبدة  الفقہ میں ہے:

"کفر اور شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ بدعت ہے۔ بدعت کی تعریف:  "بدعت اُن چیزوں کو کہتے ہیں جن کی اصل شریعت سے ثابت نہ ہو، اورشرع شریف کی چاروں دلیلوں یعنی کتاب اللّٰہ وسنت رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم و اجماع امت و قیاس مجتہدین سے ثبوت نہ ملےاور اس کو دین کا کام سمجھ کر کیا جائے یا چھوڑا جائے۔"

( کتاب الایمان، بدعت کا بیان، ص: ٦٨، ط: زوار اکیڈمی پبلی کیشنز)

المفاتیح شرح المصابیح میں ہے:

"وقال: "ليأتين على أمتي كما أتى على بني إسرائيل حذو النعل بالنعل حتى إن كان منهم من أتى أمه علانية لكان في أمتي من يصنع ذلك، وإن بني إسرائيل تفرقت على ثنتين وسبعين ملة، وتفترق أمتي على ثلاث وسبعين ملة، كلهم في النار إلا ملة واحدة"، قالوا: من هي يا رسول الله؟ قال: "ما أنا عليه وأصحابي"، رواه عبد الله بن عمرو - رضي الله عنهما.

قوله عليه الصلاة والسلام: (ما أنا عليه وأصحابي)  يعني  ما أنا وأصحابي عليه من الاعتقاد والقول والفعل فهو حق، وما عداه فهو باطلفإن قيل: بأي شيء يعرف ما عليه النبي عليه السلام وأصحابه رضوان الله عليهم. قلنا: بالإجماع، فما اجتمع عليه علماء الإسلام فهو حق، وما عداه فهو باطل."

)كتاب الإيمان، باب الإعتصام بالكتاب والسنة، ١/ ٢٢٧، ط: دار النوادر(

مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"(إلا ملة) بالنصب أي إلا أهل ملة (واحدة)  (قالوا: من هي؟)، أي  تلك الملة، أي أهلها، الناجية (يا رسول الله؟ قال: ما أنا عليه وأصحابي)، أي  هي ما أنا عليه وأصحابي، قيل: جعلها عين ما هو عليه مبالغة في مدحها وبيانا لباهر اتباعها حتى يخيل إنها عين ذلك المتبع، أو المراد بـ "ما" الوصفية على حد {ونفس وما سواها}، أي القادر العظيم الشأن سواها، فكذا هنا المراد هم المهتدون المتمسكون بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين من بعدي، فلا شك ولا ريب أنهم هم أهل السنة والجماعة، وقيل: التقدير أهلها من كان على ما أنا عليه وأصحابي من الاعتقاد والقول والفعل، فإن ذلك يعرف بالإجماع، فما أجمع عليه علماء الإسلام فهو حق وما عداه باطل ... ولله در من قال من أرباب الحال:

ألا فالزموا سنة الأنبياء … ألا فاحفظوا سيرة الأصفياء

ومن يبتدع بدعة لم يكرم … بوجدانه رتبة الأتقياء"

)كتاب الإيمان، باب الإعتصام بالكتاب والسنة، ١/ ٢٥٩، ط: دار الفكر)

فتاویٰ حقانیہ میں ہے:

"سوال: سلاسلِ اربعہ حق پر ہیں یا نہیں، اور یہ کون کون سے سلاسل ہیں؟

الجواب: وصول الی اللہ کے متعدد طرق ہیں، ان میں سے بعض طرق وسلاسل آسان اور جلد انسان کو مقصود تک پہنچا دیتے ہیں‘ اسی آسانی کے لیے مشائخ سے یہ طرق وسلاسل منقول ہیں، مگر ان میں چار طرق وسلاسل برصغیر پاک وہند میں زیادہ مشہور ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں:

(۱) الطريقة العالية النقشبندية: منسوب به خواجه بهاؤ الدين نقشبند.

(۲) الطريقة العالية  القادرية: منسوب به شيخ عبدالقادر جيلاني.

(۳) الطريقة العالية  الچشتية: منسوب به خواجه معين الدين چشتي.

(۴) الطريقة العالية  السهروردية: منسوب به خواجه شهاب الدين سهروردي."

(کتاب السلوک، ۲/ ۲۶۲، ط: مکتبہ سید احمد شہید اکوڑہ خٹک)

کفایت المفتی میں ہے:

"بیعتِ توبہ مسنون ہے‘ اور چاروں طریقے جو مروج ہیں اور معروف ہیں، ان میں مرید کرنا مستحب ہے، واجب فرض یا سنتِ مؤکدہ نہیں، پس ان طریقوں کے علاوہ بھی مرید کرنا اور توبہ کرانا جائز ہے۔۔۔الخ"

(کتاب السلوک، دوسرا باب پیری مریدی، فصلِ اول: بیعت، ۲/ ۱۰۲، ط: دارالاشاعت)

ایک اور سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:

"مراقبہ اور اسی قسم کے اور افعال جو مشائخ کے یہاں تزکیہ نفس اور ریاضت کے سلسلے میں معمول ہیں، بشرطیکہ ان میں کوئی ناجائز چیز شامل نہ ہو، مباح ہیں، فی حد ذاتہ مقاصد میں داخل نہیں ہیں، بلکہ اصل مقصود یعنی تذکر قلب یا تخلیہ رذائل یا تحلیہ بالفضائل کے ذرائع میں سے ہیں۔"

(کتاب السلوک، دوسرا باب پیری مریدی، فصلِ دوم: ریاضت، ۲/ ۱۱۰، ط: دارالاشاعت)

معارف القرآن میں ہے:

"خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت سے ذکر اللہ اور تلاوت قرآن کے تین طریقے حاصل ہوئے ، ایک یہ کہ صرف ذکرِ قلبی یعنی معانی قرآن اور معانی ذکر کے تصور اور تفکر پر اکتفاء کرے، زبان کو بالکل حرکت نہ ہو ، دوسرے یہ کہ اس کے ساتھ زبان کو بھی حرکت دے مگر آواز بلند نہ ہو جس کو دوسرے آدمی سن سکیں ، یہ دونوں طریقے ذکر کے ارشاد ربانی وَاذْكُرْ رَّبَّكَ فِیْ نَفْسِكَ میں داخل ہیں اور تیسرا طریقہ یہ ہے کہ استحضار قلب اور دھیان کے ساتھ زبان کی حرکت بھی ہو اور آواز بھی ، مگر اس طریق کے لیے ادب یہ ہے کہ آواز کو زیادہ بلند نہ کرے ، متوسط حد سے آگے نہ بڑھائے، یہ طریقہ ارشادِ قرآنی  وَدُوْنَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ میں تلقین فرمایا گیا ہے۔ "

(تفسیر سورۂ اعراف، ۴/ ۱۲۷، آیت نمبر: ۲۰۵، ط: مکتبہ معارف القرآن)

تسہیل تربیت السالک میں ہے:

"حال: اہلِ طریق (سلوک والوں) نے اکثر ذکر وشغل مراقبہ میں آنکھیں بند کرنے کو لکھا ہے (کیا) یہ صرف یکسوئی کے لیے؟

تحقیق: ہاں۔

حال: مراقبہ وغیرہ بغیر آنکھوں کے بند کئے ہوئے ہوسکتا ہے؟

تحقیق: ہوسکتا ہے۔"

(مراقبہ میں آنکھیں بند کرنا یا نہ کرنا، ۲/ ۷۹، ط: زمزم پبلشر)

الرسالۃ القشیریۃ میں ہے:

"اعلموا رحمكم الله تعالى أن المسلمين بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يتسم أفاضلهم في عصرهم بتسمية علم سوى صحبة رسول الله صلى الله عليه وسلم إذ لا فضيلة فوقها، فقيل لهم: الصحابة، ولما أدركهم أهل العصر الثاني سمى من صحب الصحابة التابعين، ورأوا ذلك أشرف سمة ثم قيل لمن بعدهم أتباع التابعين ثم أختلف الناس وتباينت المراتب، فقيل لخواص الناس ممن لهم شدة عناية بأمر الدين: الزهاد والعباد ثم ظهرت البدع وحصل التداعي بين الفرق فكل فريق أدعوا أن فيهم زهدا، فانفرد خواص أهل السنة المراعون أنفاسهم مع الله تعالي الحافظون قلوبهم عن طوارق الغفلة باسم التصوف واشتهر هذا الاسم لهؤلاء الأكابر قبل المائتين من الهجرة."

(باب في ذكر مشايخ هذه الطريقة وما يدل من سيرهم وأقوالهم على تعظيم الشريعة، ١/ ٣٤، ط: دارالمعارف)

حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب کاندھلوی ؒ آپ بیتی میں فرماتے ہیں:

"تصوف میرے اکابر کا اہم ترین مشغلہ ہے۔

در کفے جامِ شریعت در کفے سندان عشق

ہر ہو سنا کے ندا ند جام و سنداں باختن

کے سچے مصداق تھے،  یہ حضرات ایک جانب فقہ، حدیث اور علوم ظاہر یہ میں اگر ائمہ مجتہدین اور ائمہ حدیث کے حقیقی جانشین اور سچے متبع تھے، تو دوسری جانب تصوف کے ائمہ جنید و شبلی کے قدم بقدم ان اکابر نے تصوف، فقہ، حدیث کے ماتحت چلایا اور اپنے قول و فعل سے بتا دیا کہ یہ مبارک فن حقیقت میں قرآن وحدیث کا ہی ایک شعبہ ہے ۔"

(آپ بیتی نمبر ۶، فصل نمبر ۱۷: تصوف  کا بیان، ۲/ ۳۲۵، ط: مکتبہ عمرفاروق)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507100130

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں