بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا والد کی کمائی میں اولاد کا حق ہے؟


سوال

کیا والد کی کمائی میں اولاد کا حق ہے؟

جواب

صورت ِ مسئولہ میں اگر سائل کی  مراد  یہ  ہو کہ جس طرح والد کی وفات کے بعد ترکہ میں اولاد کا حق ہوتا ہے ،اسی طرح زندگی میں بھی والد کے مال میں اولاد کا حق ہے، تو یہ بات درست نہیں ہے، اس لیےکہ والد اپنی  زندگی میں اپنی جائیداد کا تن تنہامالک ہوتا ہے، اس میں اولاد کاکوئی حصہ نہیں ہوتا، البتہ نان نفقہ کے اعتبار سے والد کی کمائی میں اولاد کا حق ہوتاہے،  جس کی تفصیل یہ ہے  کہ   لڑکا  جب تک نابالغ ہو یا بالغ ہو، لیکن کسی شرعی عذر  کی وجہ سے کمانے کے قابل نہ ہوتو اس کا نان نفقہ والد پر واجب ہے ، کمائی کے قابل ہو جانے کے بعدوالد  پر لڑکے کا نان نفقہ  واجب نہیں رہتا  اورلڑکیوں کا  نان نفقہ  ان کی شادی ہونے تک والد کے ذمہ ہوتا ہے ۔

شرح المجلۃ میں ہے:

"لایجوز لأحد  أن یاخذ  مال أحد  بلا سبب شرعي."

 (مادۃ: 97،ج:1،ص:264، ط: رشیدیہ)

فتاوی شامی میں ہے:

"‌لا ‌يجوز ‌لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي."

(كتاب الحدود،ج:4،ص:61،ط:سعيد)

وفي درر الحكام في شرح مجلة الأحكام :

"كل يتصرف في ملكه المستقل كيفما شاء أي أنه يتصرف كما يريد باختياره أي لا يجوز منعه من التصرف من قبل أي أحد هذا إذا لم يكن في ذلك ضرر فاحش للغير. انظر المادة (1197)."

(كتاب الشركة، ج:3، ص: 199، ط،رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وتجب) النفقة بأنواعها على الحر (لطفله) يعم الأنثى والجمع (الفقير) الحر، فإن نفقة المملوك على مالكه والغني في ماله الحاضر ... (وكذا) تجب (لولده الكبير العاجز عن الكسب) كأنثى مطلقاوزمن.

(قوله: لطفله) هو الولد حين يسقط من بطن أمه إلى أن يحتلم، ويقال جارية، طفل، وطفلة، كذا في المغرب. وقيل أول ما يولد صبي ثم طفل ح عن النهر. (قوله: يعم الأنثى والجمع) أي يطلق على الأنثى كما علمته، وعلى الجمع كما في قوله تعالى {أو الطفل الذين لم يظهروا} [النور: 31] فهو مما يستوي فيه المفرد والجمع كالجنب والفلك والإمام - {واجعلنا للمتقين إماما} [الفرقان: 74]- ولا ينافيه جمعه على أطفال أيضا كما جمع إمام على أئمة أيضا فافهم ... (قوله: كأنثى مطلقا) أي ولو لم يكن بها زمانة تمنعها عن الكسب فمجرد الأنوثة عجز إلا إذا كان لها زوج فنفقتها عليه ما دامت زوجة وهل إذا نشزت عن طاعته تجب لها النفقة على أبيها محل تردد فتأمل، وتقدم أنه ليس للأب أن يؤجرها في عمل أو خدمة، وأنه لو كان لها كسب لا تجب عليه (قوله: وزمن) أي من به مرض مزمن، والمراد هنا من به ما يمنعه عن الكسب كعمى وشلل، ولو قدر على اكتساب ما لا يكفيه فعلى أبيه تكميل الكفاية."

( کتاب الطلاق ،باب النفقة،مطلب في نفقة المطلقة،ج:3،ص:610،ط:ايچ ايم سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ونفقة الإناث واجبة مطلقا على الآباء ما لم يتزوجن إذا لم يكن لهن مال كذا في الخلاصة. 

ولا يجب على الأب نفقة الذكور الكبار إلا أن يكون الولد عاجزا عن الكسب لزمانة، أو مرض ومن يقدر على العمل لكن لا يحسن العمل فهو بمنزلة العاجز كذا في فتاوى قاضي خان."

( کتاب الطلاق،الفصل الرابع في نفقة الأولاد،ج:1،ص:563،ط:رشيدية)

 فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144511101470

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں