کیا حضرت سلطان جلال الدین سیوطی رحمه الله نے بیداری کی حالت میں حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا دیدار کیا ہے ؟ میں نے سنا ہے کہ حضرت سلطان جلال الدین سیوطی رحمہ الله نے تقریباً 75 مرتبہ بیداری کی حالت میں حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا دیدار کیا ہے کیا یہ بات درست ہے؟اور اگر درست ہے تو کیا ہر شخص بیداری کی حالت میں حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا دیدار کر سکتا ہے؟
علامہ جلال الدین سیوطی(المتوفیٰ911ھ)کے نامور شاگرد شیخ عبد القادر بن احمد الشاذلی المالکی( المتوفیٰ945ھ)نے اپنےاستاذ علامہ سیوطی رحمہ اللہ کے حالات پر کتاب "بهجة العابدين بترجمة حافظ العصر جلال الدين السيوطي"میں اپنے استاذ کے حوالے سے یہ بات لکھی ہے کہ ہمارے شیخ اُن لوگوں میں سے جنہوں نے بیداری میں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی 77مرتبہ زیارت کی ہے،البتہ بیداری میں زیارت سے مراد"مثالی رؤیت" ہے، عالمِ شہادت کی رؤیت نہیں، ورنہ ہر شخص اس وقت دیکھتا، بلکہ خاص مثالی رؤیت ہے، عالمِ مثال کی مثال بھی خواب جیسی ہے۔ البتہ جو خواب میں دیکھ لے وہ "رؤیا" کہلائے گا، اور جو بیداری میں ہوگی وہ "رؤیت" ہوگی،خلاصہ یہ ہے کہ بیداری کی حالت میں دیکھنا ایک وجدانی امرہے جسے صرف دیکھنے والا ہی محسوس کرسکتا ہے ،کوئی اور محسوس نہیں کرسکتا ہے، لہذا علامہ شاذلی کے قول کے مطابق علامہ سیوطی نے بیداری کی حالت میں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کیا ہے اور 77مرتبہ کیا ہے،جس طرح علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ کو اللہ تعالی نے یہ اعزاز بخشا اسی طرح اور بھی بہت سے اولیاۓ کرام کو اللہ تعالی نے یہ نعمت عطافرمائی ،خود علامہ سیوطی نے ہی ایک کتاب لکھی ہے، جس کا نام "تنويرالحلك في إمكان رؤية النبي والملك"ہے،اور اس میں ایسے صحابہ کرام، اولیاء عظام جلیل القدر علماء کا تذکرہ کیا ہے جن کو بیداری میں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور فرشتوں کا دیدار نصیب ہوا،لہذا بیداری کی حالت میں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا ہونااس میں علامہ جلال الدین کی خصوصیت نہیں ہے،تاہم خواب میں یا بیداری کی حالت میں ٍ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہونا کسی انسان کے عند اللہ ٖغیر مقبول و غیر محمود ہونے کی دلیل نہیں ہے،بلکہ اصل دار و مدار ایمان قبول کرنے اور انسان کی زندگی کے اعمال کی بنیاد پر ہے،اگر کسی نیک آدمی کو خواب میں یا بیدار ی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نہیں ہوتی، تب بھی وہ اللہ کے یہاں مرتبہ والا ہے،اور اگر کسی غیر مسلم کو زیارت ہوجاتی ہے تب بھی وہ فقط اس خواب میں زیارت کرنے کی بنا پر آخرت میں درجے کا مستحق نہیں ہوگا۔
جامعہ کے سابقہ فتاویٰ میں اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں مفتی محمد عبد السلام چاٹ گامی صاحب رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:
’’عالمِ بیداری میں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنا، جب کہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاچکے ہیں، قرآن و سنت سے ثابت نہیں، جب عالمِ بیداری میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شرفِ زیارت کا ثبوت قرآن و سنت سے نہیں، اس پر دلیل قائم کرنے کی ضرورت نہیں، عالمِ بیداری میں دیکھنا ناممکن بات بھی نہیں، اور جو عالمِ بیداری میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے یا حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات، بات چیت کرنے کا دعویٰ کرتا ہے، نا ممکن کا دعویٰ نہیں کرتا۔
کتبہ محمد عبد السلام عفا اللہ عنہ (مؤرخہ23/ محرم الحرام 1394ھ)
الجواب صحیح محمد یوسف بنوری عفا اللہ عنہ
محدّث العصر حضرت مولانا محمد یوسف بنوری نور اللہ مرقدہ نے اس جواب کی تصحیح کے ساتھ ساتھ اس پر نوٹ لکھا ہے، جو مِن و عَن نقل کیا جاتاہے:
’’میری رائے میں صحیح جواب یہ ہے:
عالمِ بیداری میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنا ممنوع نہیں، حدیث یا فقہ میں اس کی ممانعت نہیں، بلکہ ایک حدیث میں ایسا اشارہ ملتا ہے کہ جس نے خواب میں مجھے دیکھا تو (ہوسکتاہے کہ) بیدای میں بھی دیکھ لے۔
اربابِ قلوب اور اہلِ تصوّف کے یہاں تو یہ چیز تواتر کو پہنچی ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور بعض اَکابر کی زیارت بیداری میں ہوتی رہتی ہے، اگرچہ بیداری کی رؤیت "مثالی رؤیت" ہے، عالمِ شہادت کی رؤیت نہیں، ورنہ ہر شخص اس وقت دیکھتا، بلکہ خاص مثالی رؤیت ہے، عالمِ مثال کی مثال بھی خواب جیسی ہے۔ البتہ جو خواب میں دیکھ لے وہ "رؤیا" کہلائے گا، اور جو بیداری میں ہوگی وہ "رؤیت" ہوگی۔
ہاں! ضرور خیال رہے کہ اس رؤیت میں ضروری نہیں کہ مرئی (جن کو دیکھا جاتاہے اس) کو علم و خبر ہو، یا اس کے تصرّف و قدرت کو دخل ہو، جیسے خواب میں کسی کو دیکھتا ہے کہ جس کو خواب میں دیکھا یہ حق تعالیٰ کی طرف سے ہے، اس شخص کے ارادے و قدرت، بلکہ علم کو بھی دخل نہیں، اور چوں کہ رؤیت مثالی ہوتی ہے، اس لیے ایک وقت میں متعدد اَشخاص متعدد مقامات میں دیکھ سکتے ہیں۔ زیادہ تفصیل کا یہ موقع نہیں۔
محمد یوسف بنوری‘‘
وفي بهجة العابدين للشيخ عبد القادر الشاذلي:
"قلت: ومما من الله عليه من الكرامة والنصرة أنه اجتمع بالنبي صلى الله عليه وسلم في اليقظة سبعاً وسبعين مرة. كتب بذلك لبعض أصحابه حين سأله في قضاء حاجة له عند بعض أرباب الدولة، فامتنع من قضائها وقال: النبي صلى الله عليه وسلم أولى أن أسأله. فعند ذلك زال ما في نفس السائل من مؤاخذة الشيخ، وقوي عنده فيه الإيمان، فلما علم منه ذلك أمره بالكتمان، ولم يذكر ذلك إلا بعد وفاته بإذن من بعض الأولياء قائلاً له : إن الذي كان يخشاه الشيخ في حياته قد زال بمماته. وألف تأليفاً سماه "تنويرالحلك في إمكان رؤية النبي والملك" ذكر فيه من كان يجتمع بالنبي صلى الله عليه وسلم وبالملائكة في اليقظة لا في المنام من الأولياء والصحابة والعلماء الأعلام، ولم يذكر عن نفسه فيه شيئاً من هذا الكلام.
قلت: أخبرني عن الشيخ - رحمه الله - جماعة فضلاء، عدول أتقياء لا يتهمون في ذلك أنه اجتمع بالنبي في اليقظة لا في المنام أكثر من سبعين مرة بإخباره لهم، لأسباب اقتضت ذلك، وأمره لهم بالكتمان، منهم القاضي الفاضل العلامة زكريا بن محمد الشافعي، وسألته عن تحرير هذه القصة فكتب لي في ورقة بخطه فيها: «الحمد لله الذي لا مانع لما أعطى، ولا معطي لما منع، والصلاة والسلام على أشرف رسول إلى رتب العلياء ارتفع وبعد: فقد عرض لي أمر مهم فعرضته على شيخنا رحمه الله وسألته أن يكتب بذلك إلى رجل من تلامذته فيتكلم فيه مع بعض أرباب الدولة فامتنع وقال: إذا حضر كلمته في ذلك. فحصل في نفسي / حزازة. ثم قمت من عنده، فلما خرجت أرسل خلفي فرجعت ، إليه وجلست بين يديه مطرقاً، فناولني ورقةً صغيرةً مكتوب فيها بخطه ما معناه: إنني اجتمعت على النبي و في اليقظة بضعاً وسبعين مرة، وسألته: أمن أهل الجنة أنا يا رسول الله؟ قال: نعم. قلت: من غير عذاب يسبق؟ قال: لك ذلك. [ جـ ٥٤] وهو أولى أن أسأله فيما شئت من قضاء الحوائج. واطرح ما في نفسك من الحزازة. فاستأذنته في التكلّم بذلك فمنعني منه إلا بإذن. وقد كتمت ذلك إلى أن قبض الله روحه إليه، وما تكلمت به حتى استأذنت بعض الأولياء في ذلك فأذن لي وقال: الذي كان الشيخ يخشاه في حال الحياة قد زال بالموت فتكلمت إذ ذاك.
قال القاضي زكريا المشار إليه هذا ما وقع لي معه من الكرامات رضي الله عنه ونفعنا بعلومه وبركاته، وكان ذلك في أثناء العشر الأول من المحرم الحرام سنة إحدى عشرة وتسعمائه.
ومنهم الشيخ الإمام العالم الصالح عطية الأبناسي، أحد أصحاب الشيخ والمحبين له والملازمين الدروسه، قال لي: سألتُ الشيخ في الاجتماع بالسلطان الغوري والححت عليه في ذلك فقال لي: لا ترجع تذكر لي ذلك فإن فلاناً من الصحابة - وسماه لي - كانت الملائكة تسلّم عليه، فاكتوى في جسده لضرورة حصلت له، فامتنعت الملائكة من السلام عليه وحجبت عنه يقظة فأخشى أو قال: فأخاف أن يحجب عني إذا اجتمعت بالسلطان. ثم قال: اكتم ذلك عني ولا تذكره لأحد. ولم أذكره إلا بعد وفاة الشيخ رحمه الله .
ومنهم الشيخ الصالح قاسم المغربي المقيم بتربة الإمام الشافعي - رضي الله عنه ـ قال لي : تكلمت مع الشيخ يوماً من الأيام في الفناء والبقاء. وذكر لي الشيخ قاسم المذكور كلاماً يشهد لما تقدّم من اجتماع الشيخ بالنبي صلى الله عليه وسلم في اليقظة بالقلب ثم يترقى إلى أن يرى بالبصر، لكن ليست الرؤيا البصرية كالرؤية المتعارفة عند الناس من رؤية بعضهم لبعض، وإنما هي جمعية حالية، وحالة برزخية، وأمر وجداني لا يُدرك حقيقته إلا من باشره. انتهى.
قلت: فهذه ثلاث كرامات حصلت للشيخ: اجتماعه بالنبي صلى الله عليه وسلم يقظة، وإخباره له بأنه من أهل الجنة، وأنه لا يعذب قبل دخولها. فالله يحشرنا في زمرته ولا يحرمنا من بركته."
(بهجة العابدين بترجمة حافظ العصر جلال الدين السيوطي للشيخ عبد القادر الشاذلي، ص:153/ 154/ 155، من مطبوعات مجمع اللغة العربية بدمشق)
فتوی نمبر : 144504101265
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن