بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

لا وارث کے مال کی تقسیم کا حکم


سوال

1) ایک شخص ایدھی کے یتیم خانے میں پرورش پاتا ہے، بڑا ہو کر صاحبِ مال ہو جاتا ہے، لیکن شادی نہیں کرتا، نہ اولاد ہوتی ہے، اس کے والدین، رشتے دار وغیرہ کا دنیا میں پائے جانے کا امکان تو ہے ،مگر علم نہیں، کیوں کہ والدین خود ہی اسے چھوڑ کر چلے گئے تھے، وراثت کسے ملے گی؟ کیا ورثاء کا علم نہ ہونے کو موجود نہ ہونا تصور کیا جائے گا؟ 

2) ایک شخص گاؤں چھوڑ کر دوسرے علاقے میں اکیلا رہتا ہے اور وہاں کام کرتا ہے،اس کے انتقال پر اہلِ محلہ میں کوئی اس کے جاننے والوں یا رشتے داروں کو نہیں جانتا اور نہ ہی اس کے گاؤں کا علم ہے، شناختی کارڈ پر بھی پتہ گاؤں کا نہیں ہے، دیگر کوئی دستاویز نہیں، اس کا مال اس کی کمپنی نے اپنے پاس امانت رکھا ہے، اس کا کیا کریں؟

جواب

1)  ایدھی سنٹر میں جن بچوں کو چھوڑے جاتے ہیں عموما ان کے والدین وغیرہ کا پتہ نہیں ہوتا ہےتو ان  کوغیر موجود تصور کیا جائے گا، لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر میت کے قریبی یا دور کے کسی بھی وارث کا علم نہ ہو (ددھیال، ننھیال میں سے کسی رشتہ دار کا علم نہ ہو)، وہ شادی شدہ بھی نہ ہو تو اس کے سارے مال کا مستحق وہ ہوگا جس کے لیے اس نے موت کے بعد سارے مال کی وصیت لکھی ہو، اور اگر کسی کے لیے وصیت نہیں لکھی تو وہ مال مدارس  کو دیا جائے گا۔

2)صورتِ مذکورہ میں اگر تلاش کے باجود  بھی میت کے کوئی دور یا قریب کے کسی بھی وارث کا علم نہ ہوجائے تو اس صورت میں کمپنی والے اس کے مال کو مدارس میں دیا جائے گا۔

فتاوی عالمگیری میں ہے :

"والوارثون أصناف ثلاثة: أصحاب الفرائض والعصبات وذوو الأرحام، كذا في المبسوط والمستحقون للتركة عشرة أصناف مرتبة، كذا في الاختيار شرح المختار فيبدأ بذي الفرض ثم بالعصبة النسبية ثم بالعصبة السببية وهو مولى العتاقة، ثم عصبة مولى العتاقة ثم الرد على ذوي الفروض النسبية بقدر حقوقهم، ثم ذوي الأرحام ثم مولى الموالاة ثم المقر له بالنسب على الغير بحيث لم يثبت نسبه بإقراره من ذلك الغير إذا مات المقر مصرا على إقراره، كما لو أقر بأخ أو أخت وما أشبه ذلك ثم الموصى له بجميع المال ثم بيت المال، كذا في الكافي."

(کتاب الفرائض،ج:6،ص:667،دارالفکر)

فتاوی شامی میں ہے :

"(قوله: ورابعها فمصرفه جهات إلخ) موافق لما نقله ابن الضياء في شرح الغزنوية عن البزدوي من أنه يصرف إلى المرضى والزمنى واللقيط وعمارة القناطر والرباطات والثغور والمساجد وما أشبه ذلك. اهـ.ولكنه مخالف لما في الهداية والزيلعي أفاده الشرنبلالي أي فإن الذي في الهداية وعامة الكتب أن الذي يصرف في مصالح المسلمين هو الثالث كما مر.وأما الرابع فمصرفه المشهور هو اللقيط الفقير والفقراء الذين لا أولياء لهم فيعطى منه نفقتهم وأدويتهم وكفنهم وعقل جنايتهم كما في الزيلعي وغيره.وحاصله أن مصرفه العاجزون الفقراء فلو ذكر الناظم الرابع مكان الثالث ثم قال وثالثها حواه عاجزونا ورابعها فمصرفه إلخ لوافق ما في عامة الكتب."

(کتاب الزکوۃ،باب العشر،ج:2،ص:338،سعید)

مفیدالوارثین میں ہے:

"دنیا کے چند روزہ مسافر کا  مال بوقتِ رخصت خدائے تعالی نے اس کی تسلی کے لئے ایسے لوگوں کو دلوا دیا ہے جو اس سے قرابت کا تعلق رکھتے ہوں، جن کو وارثان شرعی کہتے ہیں ،لیکن اگر کسی میت کے فی الحقیقت کوئی دارث اقسام مذکورہ بالامیں سے موجود ہی نہ ہو یا کوئی ہو مگر کسی کو بھی معلوم نہ ہو تو اس مسافر کے پس ماندہ اسباب کے تمام مسلمان مسحق ہوں گے جو اسلامی تعلق میت سے رکھنے والے ہیں ،لیکن اگر تقسیم کیا جائے تو ایک ایک ذرہ بھی کسی کے حصہ میں نہ آوے، لہذا شرعی حکم یہ مقرر ہوا کہ وہ مال بادشاہ اسلام کے خزانہ میں داخل کیا جائے جس کو بیت المال کہتے ہیں، وہاں سے وہ ایسے مفید خلائق اور رفاہ عام کے کاموں میں خرچ ہو گا جس سے بلا خصوصیت عام مسلمانوں کو نفع پہونچے ،مثلاً جہاد کے لئے فوج ولشکر تیار کرنا، سرحدوں پر حفاظت کے لئے چھاؤنیاں اور چوکیاں قائم کرنا، دریاؤں کے پل اور سٹرکیں بنانا، مدارس و مهمان سرائےپر خرچ کرنا ۔

آج کل ہندوستان میں چوں که اسلامی خزانہ اوربیت المال نہیں ہے، لہذا جب کوئی وارث کسی  قسم کا موجودنہ ہو تومیت کا ترکہ بجائے بیت المال کے فقراء پر صرف کر دیا جائے،خواہ  یہ فقراء  مدارس کے طلبہ و مدرس ہوں یا خانقاہوں کے صوفی اور درویش یا مساجد کے امام و خادم، لیکن یہ خیال رہے کہ کسی شخص کو اجرت میں نہ دیا جائے اور نہ کسی مال دار غنی شخص کو دیا جائے۔"

(بیت المال ،ص:92،ط:ادارہ اسلامیات انارکلی لاہور)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511102350

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں