بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 ذو الحجة 1445ھ 03 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

لفظِ آزد سے طلاق واقع ہونے کی تفصیل


سوال

 میں ایک شادی شدہ اپنی زندگی سے مطمئن شخص ہوں، مسئلہ یہ بیان کرنا تھا کہ ایک دن میں گھر ایا، تو حسب معمول بیوی سے مذاق وغیرہ کیا، تو کسی بات پر وہ ناراض ہو کر ہمارے دوسرے گھر جانے لگیں، میں نے منع کیا، پر وہ چلی گئی، میں بھی پیچھے پیچھے دوسرے گھر چلا گیا، وہاں ہم نے کھانا کھایا،اس کو سمجھانے کے لیے میں نے ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ" جو لڑکی گھر سے قدم باہر نکالتی ہے، وہ آزاد ہوتی ہے"۔  یہ اچھا نہیں کیا،میرا آزاد کا مطلب :آزاد خیال والا آزاد تھا، پھر ماحول سارا ٹھنڈا ہو گیا ،مگر میں ناراضگی دکھا رہا تھا،پھر انہوں نے کپڑے دھونے کے لیے لفافے میں ڈالے، ہم جانے لگے، تو وہ دروازے میں کھڑی ہو کر منانے لگ گئیں، میں نے پھراعتدال و ٹھنڈے لہجے میں و ہی بات دہرائی کہ" آزاد ہو،  جو دل ہے کرو"، میں حلفاً کہتاہوں کہ میرے ذہن میں "آزاد "سے آزاد خیال والا آزادمراد تھا،  انہوں نے کہا ایسانہیں کہتے، دوبارہ کہو، میں نے پھر کہہ دیا، اور پھر کمرے سے نکل کر ہم دوسرے گھر آ گئے، سب نارمل ہو گیا ،میں حلفاً قرآن پر ہاتھ اور کلمہ پڑھ کر کہتاہوں کہ میرے دل میں وہ والا آزاد دور دور تک نہیں تھا، بعد میں پتہ لگا کے آزاد لفظ اتنا خطرناک ہے، میں پھر حلفاً کہتاہوں کہ  نہ تو اس قسم کا مذاکرہ چل رہا تھا، نہ میری نیت میں چھوڑنے کی کوئی بات تھی، آزاد کا لفظ آزاد خیال یا خودمختار تھا،مہربانی کر کے جواب دیجیے کہ میری طلاق ہوئی ہے کہ نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ " آزاد " کالفظ ہمارے عرف میں طلاق کے لیے استعمال ہوتاہے، تاہم اگر کلام میں کوئی ایساقرینہ موجود  ہو، جو لفظِ "آزاد "کو طلاق سے پھیر کر کسی اور معنی کی طرف لے جاتاہو، اور شوہرنے طلاق کی نیت بھی نہ کی ہو، تو اس لفظ سے طلاق واقع نہیں ہوتی؛ لہذا صورتِ مسئولہ میں پہلے جملے " جو لڑکی گھر سے قدم باہر نکالتی ہے، وہ آزاد ہوتی ہے" میں لفظِ آزاد میں طلاق کے علاوہ کسی اور معنی کا احتمال موجود ہے، اور شوہرنے طلاق کی نیت بھی نہیں کی ہے، تو اس سے سائل کی بیوی پر کوئی طلاق نہیں ہوئی ہے۔

البتہ سائل کےاس  دوسرے جملے" آزاد ہو،  جو دل ہے کرو" سے سائل کی بیوی پر ایک طلاقِ بائن واقع ہوگئی ہے، جس سے سائل کا نکاح ختم ہوچکاہے، دوگواہوں کی موجودگی میں نئے مہر سے دوبارہ نکاح کرنے سے بیوی حلال ہوجائےگی۔

تاہم بیوی نے دوسرے جملہ کے بعد کہا کہ "ایسانہیں کہتے"تو پھر کیوں انہوں نے دوبارہ کہنے کا کہا؟ اور سائل نے پھر کیوں کہا؟ اور سائل نے اس کے جواب میں کیا کہا؟ان تین وضاحتوں کے بعد اس کاحکم بتادیاجائےگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"لأن ‌ما ‌ذكروه في تعريف الكناية ليس على إطلاقه، بل هو مقيد بلفظ يصح خطابها به ويصلح لإنشاء الطلاق الذي أضمره أو للإخبار بأنه أوقعه كأنت حرام، إذ يحتمل لأني طلقتك أو حرام الصحبة وكذا بقية الألفاظ."

(كتاب الطلاق،باب الكنايات،٢٩٦/٣،ط:سعيد)

وفیہ ایضاً:

"(قوله ويقع الطلاق إلخ) يعني إذا قال لامرأته: ‌أعتقتك تطلق إذا نوى أو دل عليه الحال."

(كتاب الطلاق،باب الكنايات،٢٤٦/٣،ط:سعيد)

امدادالاحکام میں ہے:

"اگرکلام میں عدمِ ارادہ طلا ق کاقرینہ ہو،توپھریہ نہ صریح طلاق سےہے،اورنہ کنایات سے،مثلاً یوں کہاجائےکہ توآزاد جوچاہےکھا،پی ،اورمیں نےاپنی بیوی کوآزادکیا،چاہےوہ میرےپاس رہےیااپنےگھر،اوروہ آزادہےجب اس کاجی چاہےآوے۔ان استعمالات میں ہرگزکوئی شخص محض مادۂ آزادکی وجہ سےاس کلام کوکنایۂ طلاق نہیں کہہ سکتا،بلکہ اباحت افعال وتخییرپرمحمول کرےگا۔"

(کتاب الطلاق،فصل فی الطلاق بالکنایات،جلددوم ،حصہ اول ،ص:271،ط:مکتبہ دارالعلوم کراچی)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144505101898

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں