میں نے جھگڑے کی حالت میں اپنی بیوی سے کہاکہ میں تمہیں طلاق دینے والا ہوں جبکہ اسی طرح دو مہینے پہلے بھی میں نے کہا تھا ،چنانچہ اب بیوی نے کہا کہ چونکہ تم نے اس طرح دو دفعہ کہا ہےلہذا مجھے طلاق ہوگئی ہے اور میں اب عدت پر بیٹھ رہی ہوں تو میں نےبھی غصے سے کہا کہ جاؤ عدت پر بیٹھ جاؤ،مجھے معلوم نہیں تھا کہ اس سے بھی طلاق واقع ہوتی ہے اور نہ میرا ارادہ تھا اور اب ہم تین دن سے بات چیت نہیں کر رہے ہیں ۔
اب یہ پوچھنا ہے کہ کیا طلاق ہوئی یا نہیں ؟اگر ہوئی تو بائن ہوئی یا رجعی ؟اور کیا اب میں رجوع کرسکتا ہوں یا تجدید نکاح ہوگی؟
صورت مسئولہ میں لفظ (طلاق دینے والا ہوں)سے طلاق واقع نہیں ہوئی ؛کیونکہ یہ محض ارادۂ طلاق ہے ،اور ارادۂ طلاق سے طلاق واقع نہیں ہوتی،البتہ اس کے بعد جب سائل نے غصے کی حالت میں اپنی بیوی سے کہا کہ "جاؤ بیٹھ جاؤ عدت پر" اس سے سائل کی بیوی پر ایک طلاق رجعی واقع ہوئی،اب سائل عدت (تین ماہواری اگر حمل نہ ہو ،اور اگر حمل ہو تو بچے کی پیدائش تک)ختم ہونے سے پہلے پہلے اپنی بیوی سے رجوع کرسکتا ہے،قولاًیعنی زبان سے کہے کہ میں نےبیوی سے رجوع کرلیا یا عملاًیعنی ہمبستری وغیرہ کے ذریعے سے،اور اگر عدت کے اندر اندر رجوع نہ کیا تو دونوں کا نکاح آپس میں ختم ہوجاۓ گا ،پھر بیوی دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی،ہاں اگر دونوں آپس کی رضامندی سے پھر ایک ساتھ رہنا چاہتے ہوں تو شرعی گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر اور تجدید نکاح کے ساتھ یہ بھی جائز ہوگا ،بہردوصورت شوہر کے پاس اس کے بعد دو طلاقوں کا اختیار باقی رہے گا۔
عالمگیریہ میں ہے:
"فقال الزوج طلاق ميكنم طلاق ميكنم وكرر ثلاثا طلقت ثلاثا بخلاف قوله كنم لأنه استقبال فلم يكن تحقيقا بالتشكيك."
(کتاب الطلاق،الباب الثانی فی ایقاع الطلاق،الفصل السابع فی الطلاق بالافاظ الفارسیۃ،ج:1، ص:384،ط:سعید)
بدائع الصنائع میں ہے:
"وكذا قوله: اعتدي واستبرئي رحمك؛ لأن الواقع بكل واحدة منهما رجعي فصار كقوله: أنت واحدة."
(کتاب الطلاق،فصل فی الکنایۃ فی الطلاق،ج:3،ص:108،ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144608102152
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن