جس عورت کو لیکوریا کی بیماری ہو تو وہ اس حالت میں نماز پڑھ سکتی ہے؟ اور اگر پڑھ سکتی ہے تو اس کی کیا شرائط ہیں؟
صورت ِمسئولہ میں لیکوریا کی مریضہ کے لیےنماز ادا کرنے میں یہ بات ملحوظ رہنی چاہے کہ اگر عورت کو لیکوریا کی بیماری کے باوجود وضوکرنے کے بعدپاکی کی حالت میں ایک وقت کی نمازپاکی کے ساتھ ادا کرنے کا موقع مل جاتاہو،نماز کے دوران لیکوریا کی رطوبت کااخراج نہیں ہوتا تو ایسی صورت میں ہرنماز پاک صاف ہوکروضوکرکے اداکرنا ضروری ہوگا۔
البتہ اگر بیماری کی شدت اتنی زیادہ ہے کہ کسی نمازکے مکمل وقت میں اتنا وقفہ نہ ملےجس میں وہ وضو کرکے پاکی کی حالت میں اس وقت کی فرض نماز ادا کرسکے تو وہ معذور کے حکم میں ہے، اور معذور کا شرعی حکم یہ ہے کہ ہر نماز کا وقت داخل ہونے کے بعد ایک مرتبہ وضوکرلیا کرے اور پھر اس وضو سے جتنی نمازیں پڑھنا چاہے پڑھے اور دیگر عبادات بھی ادا کرے ،جب تک اس نماز کا وقت باقی ہے ، وضو برقرار رہےگا،چاہے اس دوران لیکوریا کی رطوبت نکلتی رہے،البتہ اگر وضو کے بعد لیکوریا کی رطوبت (یعنی جس بیماری کی وجہ سے وہ معذور کے حکم میں ہے ) کے علاوہ کوئی اور وضو توڑنے والی چیز صادر ہو تو اس سے وضو ٹوٹ جائے گا،اسی طرح جب ایک نماز کا وقت ختم ہوجائے تو اس سے بھی اس کا وضو ٹوٹ جائے گا،اگلی نماز کاوقت داخل ہونے کے بعد نیا وضوکرے نیزباقی ایک دفعہ معذور بن جانے کے بعد معذوری برقرار رہنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر فرض نماز کے وقت میں کم از کم ایک دفعہ اسےیہ عذر پیش آئے،اگر ایک نماز کا وقت بغیر عذر کے گزر گیا تو سائلہ معذور نہیں رہے گی۔
نیز لیکیوریا کی رطوبت نجس ہے،کسی کپڑے پر لگ جائے تو کپڑا ناپاک ہوجائے گا، لہذاکپڑا پاک کرنے کے بارے میں یہ تفصیل ہے کہ اگر اتنا وقفہ مل جائے کہ کپڑادھوکرنماز پڑھ لی جائے اور نماز کے درمیان لیکوریا کی قلیل مقدار کے اخراج سے وہ کپڑا دوبارہ ناپاک نہ ہوتا ہو تو اس صورت میں کپڑادھونا واجب ہے، اوراگر یہ حالت ہو کہ کپڑا دھو کر نماز پڑھنے کے درمیان وہ پھرناپاک ہوجاتا ہو تو دھوناواجب نہیں ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(وصاحب عذر من به سلس) بول لا يمكنه إمساكه (أو استطلاق بطن أو انفلات ريح أو استحاضة) أو بعينه رمد أو عمش أو غرب، وكذا كل ما يخرج بوجع ولو من أذن وثدي وسرة (إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة)
بأن لا يجد في جميع وقتها زمنا يتوضأ ويصلي فيه خاليا عن الحدث (ولو حكما) لأن الانقطاع اليسير ملحق بالعدم (وهذا شرط) العذر (في حق الابتداء، وفي) حق (البقاء كفى وجوده في جزء من الوقت) ولو مرة (وفي) حق الزوال يشترط (استيعاب الانقطاع) تمام الوقت (حقيقة) لأنه الانقطاع الكامل.ونحوه (لكل فرض) اللام للوقت كما في - {لدلوك الشمس} [الإسراء: 78]- (ثم يصلي) به (فيه فرضا ونفلا) فدخل الواجب بالأولى (فإذا خرج الوقت بطل) أي: ظهر حدثه السابق، حتى لو توضأ على الانقطاع ودام إلى خروجه لم يبطل بالخروج ما لم يطرأ حدث آخر أو يسيل كمسألة مسح خفه.
وأفاد أنه لو توضأ بعد الطلوع ولو لعيد أو ضحى لم يبطل إلا بخروج وقت الظهر.(وإن سال على ثوبه) فوق الدرهم (جاز له أن لا يغسله إن كان لو غسله تنجس قبل الفراغ منها) أي: الصلاة (وإلا) يتنجس قبل فراغه (فلا) يجوز ترك غسله، هو المختار للفتوى.
قوله: اللام للوقت) أي: فالمعنى لوقت كل صلاة، بقرينة قوله بعده فإذا خرج الوقت بطل، فلا يجب لكل صلاة خلافا للشافعي أخذا من حديث «توضئي لكل صلاة» قال في الإمداد: وفي شرح مختصر الطحاوي روى أبو حنيفة عن هشام بن عروة عن أبيه عن عائشة رضي الله عنها «أن النبي صلى الله عليه وسلم قال لفاطمة بنت أبي حبيش: توضئي لوقت كل صلاة» ولا شك أنه محكم؛ لأنه لا يحتمل غيره بخلاف حديث " لكل صلاة " فإن لفظ الصلاة شاع استعماله في لسان الشرع والعرف في وقتها فوجب حمله على المحكم وتمامه فيه.(قوله: ثم يصلي به) أي: بالوضوء فيه أي: في الوقت (قوله: فرضا) أي: أي فرض كان نهر أي: فرض الوقت أو غيره من الفوائت."
(کتاب الطہارت، باب الحیض، مطلب فی احکام المعذور، ج: 1، ص: 305۔306، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144607103001
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن