بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

لمبا قیام کیے بغیر ایک تکبیر کہہ کر امام کے ساتھ رکوع میں شامل ہونے کا حکم


سوال

کوئی شخص جماعت کی نماز میں امام کے ساتھ اس حال میں شریک ہوا کہ امام رکوع میں تھا اور اس نے بھی رکوع پا لیا تو گویا اس نے وہ رکعت پا لی، اب سوال یہ ہے کہ اس نے قیام کیا نہیں جو کہ فرض ہے، اسی طرح اگر وہ صرف ایک تکبیر کہے تو وہ رکوع کی تکبیر ہو جائے گی تو تکبیر تحریمہ نہیں کہی جو کہ فرض ہے تو اس کی نماز کیسے درست ہے؟

جواب

اگر کوئی شخص امام کو رکوع میں پاتا ہے اور تکبیر کہہ کر رکوع میں چلا جاتا ہے تو تکبیر کہنے کے وقت سے لے کر گھٹنوں پر ہاتھ رکھنے کے درمیان کا وقت قیام شمار ہو گا، نیز جو تکبیر کہی گئی اگر وہ حالتِ قیام میں کہی ہے یا جھکنے کی حالت میں کہی ہے جب کہ وہ قیام کے زیادہ قریب تھا تو وہ تکبیرِ تحریمہ سمجھی جائے گی اور نماز درست ہو گی۔

اور اگر جھکنے کی حالت میں تکبیر کہی جب کہ وہ رکوع کے زیادہ قریب تھا تو اس کو تکبیر تحریمہ نہیں کہا جائے گا اور اس کی نماز درست نہیں ہو گی۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"لو كبر قائما فركع ولم يقف صح لأن ما أتى به القيام إلى أن يبلغ الركوع يكفيه."

(كتاب الصلاة ، فرائض الصلاة ، جلد : 1 ، صفحه : 445 ، طبع : سعيد)

حاشیۃ الطحطاوی میں ہے:

"و" الثاني من شروط صحة التحريمة "‌الإتيان ‌بالتحريمة قائما" أو منحيا قليلا "قبل" وجود "انحنائه" بما هو أقرب "للركوع" قال في البرهان لو أدرك الإمام راكعا فحنى ظهره ثم كبر أن كان إلى القيام أقرب صح الشروع ولو أراد به تكبير الركوع وتلغو نيته لأن مدرك الإمام في الركوع لا يحتاج إلى تكبير مرتين خلافا لبعضهم وإن كان إلى الركوع أقرب لا يصح الشروع."

(کتاب الصلاۃ ، باب شروط الصلاۃ وارکانھا ، صفحه : 218 ، طبع : دار الکتب العلمیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603102566

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں