میرے بیٹے نے جس کی عمر 21 سال تھی اورا ب 22 سال ہے، یعنی 8مہنیے پہلے اپنی عمر سے 19سال بڑی اور 39 سال کی عمروالی 6بچوں کی ماں سے جو 8سال پہلے بیوہ ہوگئی تھی، خفیہ شادی(کورٹ میرج)کی ہے،ہمارے بیٹے نے اس سلسلے میں ہمیں بے خبر رکھا ،والدین سمیت بھائی ،بہن ،یا کسی رشتہ دار کو خبر نہیں کی،جب کہ ہمارا بیٹا پڑھا لکھا ہے اور اب یونیورسٹی میں طالب علم ہے، اور اس کی شادی ہم خود کرناچاہتے تھے، دوسری طرف عورت کہتی ہے کہ میں نے اپنے ماں باپ اوردو بیٹیوں کو اس کےمتعلق بتایا ہے، اس خاتون کے شوہر کا 8سال پہلے قتل ہواتھا، اور اب ایک پرائیوٹ سکول میں جاب کررہی ہے، دو بیٹیاں ابھی ایک 12یا 13 سال کی ہیں ،جب سے یہ خبر سنی ہے ،ہمارا کھانے پینےاور عبادت کا پورا نظام خراب ہوگیا ہے، اب یہ دونوں اس شادی کا اعلان کرنا چاہتے ہیں اور کوئی تقریب منعقد کرنا چاہتے ہیں،جب کہ ہماری با لکل مرضی نہیں ہے، ہم اس خاتون سے بیٹے کی جان چھڑوانا چاہتے ہیں، اور ہم طلاق کا مطالبہ کررہے ہیں ،لیکن بیٹا بضد ہے کہ اس کے ساتھ رہنا ہے، جب کہ بیٹے کی ایک روپیہ آمدنی نہیں ہے، ہم سے 50/100روپے لیتا ہے تو ان حالات میں کیا ہمارا مطالبہ ٹھیک ہے ؟کیا ہم اپنے بیٹے کا مستقبل سنوارنے یا اس کےمتعلق سوچنے کا حق رکھتے ہیں؟ برائے مہربانی ہماری راہ نمائی فرمائیں! ہمارے بیٹے سے بڑااس خاتون کا ایک بیٹا ہے جو عمر میں ہمارے بیٹے سے بڑا ہے اور سرکاری ملازمت کرتاہے،نکاح کے وقت خاتون نے والدین کو نہیں بتایا تھا۔
صورتِ مسئولہ میں اگر سائل کے بیٹے نے مذکورہ خاتون سےشرعی گواہوں(دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں) کی موجودگی میں ایجاب وقبول کرکے کورٹ میں نکاح کیا تھا، تو شرعًا یہ نکاح منعقد ہوچکا ہے، اب جب کہ دونوں راضی ہیں، اور خاتون میں کوئی شرعی یااخلاقی خرابی نہیں ہے، تو سائل کا بیٹے کو مذکورہ بیوی کو طلاق دینے پر مجبور کرنا، یا نکاح ختم کروانے کی سعی کرنا شرعًا جائز نہیں ہوگا ؛کیوں کہشریعتِ مطہرہ نے نکاح ہوجانے کے بعد طلاق کو پسند نہیں کیا ہے۔
’’آپ کے مسائل اور ان کا حل‘‘ میں ہے:
"والدین کے ناحق طلاق کے حکم کو ماننا جائز نہیں
سوال: والدین اگر بیٹے سے کہیں کہ اپنی بیوی کو طلاق دے دو اور بیٹے کی نظر میں اس کی بیوی صحیح ہے، حق پر ہے، طلاق دینا اس پر ظلم کرنے کے مترادف ہے، تو اس صورت میں بیٹے کو کیا کرنا چاہیے؟ کیوں کہ ایک حدیثِ پاک ہے جس کا قریب یہ مفہوم ہے کہ ”والدین کی نافرمانی نہ کرو، گو وہ تمہیں بیوی کو طلاق دینے کو بھی کہیں“ تو اس صورتِ حال میں بیٹے کے لیے شریعت میں کیا حکم ہے؟
جواب: حدیثِ پاک کا منشا یہ ہے کہ بیٹے کو والدین کی اطاعت و فرماں برداری میں سخت سے سخت آزمائش کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے، حتیٰ کہ بیوی بچوں سے جدا ہونے اور گھر بار چھوڑنے کے لیے بھی۔ اس کے ساتھ ماں باپ پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بے انصافی اور بے جا ضد سے کام نہ لیں۔ اگر والدین اپنی اس ذمہ داری کو محسوس نہ کریں اور صریح ظلم پر اُتر آئیں تو ان کی اطاعت واجب نہ ہوگی، بلکہ جائز بھی نہ ہوگی۔ آپ کے سوال کی یہی صورت ہے اور حدیثِ پاک اس صورت سے متعلق نہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ اگر والدین حق پر ہوں تو والدین کی اطاعت واجب ہے، اور اگر بیوی حق پر ہو تو والدین کی اطاعت ظلم ہے۔ اور اسلام جس طرح والدین کی نافرمانی کو برداشت نہیں کرسکتا، اسی طرح ان کے حکم سے کسی پر ظلم کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتا۔"
سوال: ساس اور بہو کے گھریلو جھگڑوں کی وجہ سے اگر ساس یا سُسر اپنے بیٹے کو حکم کریں کہ تُم اسے چھوڑ دو ہم تمہیں دُوسری بیوی کروادیں گے تو کیا بیٹا اس حکم کی تعمیل کرے گا؟
جواب: اگر بیوی قصور وار ہو تو والدین کے حکم کی تعمیل کرے، اور اگر بے قصور ہو تو تعمیل نہیں کرنی چاہیے۔"
(تنسیخِ نکاح، ج:6، ص:683/682ط:مکتبہ لدھیانوی)
فتاوی شامی میں ہے:
(وينعقد) ... (بإيجاب) من أحدهما (وقبول) من الآخر.
(كتاب النكاح، ج:3 ، ص:9، ط:سعید)
فتاوی شامی میں ہے:
"(فنفذ نكاح حرة مكلفة بلا) رضا (ولي)."
(كتاب النكاح، ج:3 ، ص: 55، ط:سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
" فإذا تزوجت المرأة رجلًا خيرًا منها؛ فليس للولي أن يفرق بينهما فإن الولي لايتعير بأن يكون تحت الرجل من لايكافئوه، كذا في شرح المبسوط للإمام السرخسي".
(کتاب النکاح،ج:1ص: 290،ط:دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144606101137
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن