بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1446ھ 22 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

لڑکیوں کے اسکول کے لیے زمین فروخت یا وقف کرنے کا حکم


سوال

سرکاری اسکول، کالج یا کوئی اور رفاہی ادارہ  جب بنتا ہے، تو اس کےلیے یا تو عوام کی طرف سے زمین وقف ہوجاتی ہے، یاحکومت عوام سے زمین قیمتاً خریدتی ہے،  اس کے بعد اس پر سکول وغیرہ تعمیر کیاجاتا ہے، جب تعمیر مکمل ہوجائے اور اس میں تعلیم کا آغاز ہوجائے تو سکول کے دیکھ بال کےلیے چوکیدار  کی ضرورت ہوتی ہے، تو حکومت والے اس  میں ان لوگوں کو چوکیدار لگاتے ہیں، جس سے یہ زمین خریدی گئی تھی اور اس کو ماہانہ تنخواہ بھی ملتی ہے۔

اب دریافت یہ کرنا ہے کہ:

1:کیا لڑکیوں کے اسکول بنانے کےلیے اپنی زمین وقف کرنا یاحکومت کو زمین بیچنا شرعاً جائز ہے؟

2:نیز اسی سابقہ مالکِ زمین یا وقف کرنے والے کےلیے اسی سکول میں چوکیداری کرنا  اور اس کے عوض تنخواہ لینا درست ہے یانہیں؟نیز  اگرحکومت  تعاون کے طور پر   کچھ دے دےتو وہ لینا جائز ہے؟

جواب

1:صورتِ مسئولہ میں اگر لڑکیوں کے اسکول میں خلاف شریعت تعلیم نہ ہو اور  پڑھانے والی عورتیں ہوں اور مردوں کا کسی صورت میں اختلاط نہ ہو تو ایسی صورت میں اپنی زمین سکول کےلیے حکومت کو فروخت کرنا یا وقف کرنا جائز  ہو گا،ورنہ نہیں ۔

2: حکومت کی طرف سے چوکیداركے ليے  جو معیار ہے اگر سابقہ مالکِ زمین یا واقف اس معیار  پر پورا اترتا ہو تو اس کےلیے اسی سکول میں چوکیداری کرنا اور تنخواہ لینا جائز ہے، تاہم بیچنے کی صورت میں بیع سے پہلے یہ شرط لگانا جائز نہیں ہوگا کہ میں اسکول میں چوکیداری کروں گا، نیز اگر حکومت بطورِ تعاون اپنی طرف سے کچھ دینا چاہے تو لینا جائز ہو گا۔

الموسوعۃ الفقہیۃ میں ہے:

"الأصل في الوقف أنه من القرب المندوب إليها، وقد تعتريه أحكام أخرى في حالات معينة: فقد يكون الوقف فرضا وهو الوقف المنذور كما لو قال: إن قدم ولدي فعلي أن أقف هذه الدار على ابن السبيل  ، وقد يكون مباحا إذا كان بلا قصد القربة، ولذا يصح من الذمي ولا ثواب له، ويكون قربة إذا كان من المسلم .وقد يكون الوقف حراما كما لو وقف مسلم على معصية كوقفه على كنيسة".

(وقف، مشروعیة الوقف، ج:44، ص:112، ط:طبع الوزارة)

فتاوى شامی میں ہے:

"ولا يصح وقف مسلم أو ذمي على بيعة أو حربي".

(کتاب الوقف، مطلب قد يثبت الوقف بالضرورة، ج:4، ص:342، ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"ولا يحل للمقرر الأخذ إلا النظر على الواقف  بأجر مثله قنية تجوز الزيادة من القاضي على معلوم الإمام إذا كان لا يكفيه وكان عالما تقيا، ثم قال بعد ورقتين والخطيب يلحق بالإمام بل هو إمام الجمعة قلت: واعتمده في المنظومة المحبية".

وفی الرد:

"(قوله: إلا النظر على الوقف) اعلم أن عدم جواز الإحداث مقيد بعدم الضرورة كما في فتاوى الشيخ قاسم، أما ما دعت إليه الضرورة واقتضت المصلحة كخدمة الربعة الشريفة وقراءة العشر والجباية وشهادة الديوان فيرفع إلى القاضي، ويثبت عنده الحاجة فيقرر من يصلح لذلك، ويقدر له أجر مثله أو يأذن للناظر في ذلك ۔۔۔۔(قوله: بأجر مثله) وعبر بعضهم بالعشر والصواب أن المراد من العشر أجر المثل حتى لو زاد على أجر مثله رد الزائد كما هو مقرر معلوم، ويؤيده أن صاحب الولوالجية بعد أن قال: جعل القاضي للقيم عشر غلة الوقف فهو أجر مثله، ثم رأيت في إجابة السائل، ومعنى قول القاضي للقيم عشر غلة الوقف أي التي هي أجر مثله لا ما توهمه أرباب الأغراض الفاسدة إلخ بيري على الأشباه من القضاء. قلت: وهذا فيمن لم يشرط له الواقف شيئا وأما الناظر بشرط الواقف فله ما عينه له الواقف: ولو أكثر من أجر المثل كما في البحر ولو عين له أقل فللقاضي أن يكمل له أجر المثل بطلبه كما بحثه في أنفع الوسائل ويأتي قريبا ما يؤيده وهذا مقيد لقوله الآتي ليس للمتولي أخذ زيادة على ما قرر له الواقف أصلا".

(کتاب الوقف، فصل فی اجارۃ الواقف، ج:4، ص:436، ط:سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144306100777

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں