لڑکی کا ایمان نام رکھنا کیسا ہے ؟
واضح رہے کہ بچوں کے ناموں کے سلسلہ میں والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کے ایسے نام نہ رکھیں جس میں نیک فالی اور تفاؤل ہوتا ہو کہ اگر اس بچےکو پکارا جائے اور وہ موجود نہ ہو تو یہ نہ کہا جائے کہ وہ نہیں ہے، مثلاً کسی بچے کا نام یسار ہے تو پوچھا جائے کہ یسار(بمعنی آسانی) ہے؟ تو جواب میں کہا جائے گا کہ نہیں تو معنی یہ ہوا کہ یہاں یسر وآسانی نہیں پائی جاتی جو بری بات ہے، نیز والدین کو چاہیے کہ وہ بچے کا ایسا نام بھی نہ رکھیں جس میں بدفالی ہو سکتی ہو ، یا وہ بدفالی پر دلالت کرتے ہوں تاکہ بچے اس نام کی بدفالی اور نحوست سے محفوظ رہیں۔
صورتِ مسئولہ میں بچی کا ایمان نام نہیں رکھناچاہیے؛ اس لیے کہ اگر بچی کو پکارا جائے اور وہ موجود نہ ہو تو جواب میں کہا جائے گا ایمان نہیں ہے جو کہ بُری بات ہے،لہذا ایمان نام کے بجائے کوئی اور اچھا ، بامعنیٰ نام رکھا جائے۔ بہتر یہ ہے کہ بچیوں کے نام ازواج مطہرات، بنات طیبات اورصحابیات رضی اللہ عنھن کے اسماء میں سے کسی کے نام پر نام رکھا جائے۔
حدیث شریف میں ہے:
"حدثنا النفيلي، حدثنا زهير، حدثنا منصور بن المعتمر، عن هلال بن يساف، عن ربيع بن عميلة، عن سمرة بن جندب، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لاتسمينّ غلامك يسارًا، و لا رباحًا، و لا نجيحًا، ولا أفلح»، فإنك تقول: أثم هو؟ فيقول: «لا إنما هن أربع فلاتزيدن علي»."
)سنن أبي داود، باب في تغيير الاسم القبيح، ج:4، صفحہ: 290، رقم الحدیث:4958)، ط: المكتبة العصرية - بيروت)
اسلام اور تربیت ِ اولاد ۔ج1،ص 95،ط؛مکتبۃ الحبیب (مترجم: ڈاکٹر حبیب اللہ مختار شہید رحمۃ اللہ علیہ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144408101224
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن