بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

لڑکی کا والدین کی رضامندی کے بغیر غیر کفو میں نکاح کرنا


سوال

میرے بھائی کی بیٹی ڈاکٹر ہے، عمر 29 سال ہے، وہ ایک لڑکے کی وجہ سے گھر چھوڑ کر پنجاب چلی گئی، جہاں لڑکے کے والدین نے اس کا اس لڑکے سے نکاح کروادیا، اس نکاح پر لڑکی کے والدین راضی نہیں تھے، اور نہ ہی ان کو نکا ح میں شریک کیا۔

اب لڑکی کے گھر والے چاہتے ہیں کہ وہ لڑکی واپس آجائےاور اس لڑکے کو چھوڑ دے، کیوں کہ لڑکا کوئی خاص تعلیم یافتہ نہیں ہے اور اچھی نوکری بھی نہیں ہے، مالی اعتبار سے بھی کمزور ہے،لیکن لڑکی کہتی ہے کہ میں نے اس  سے نکاح کرلیا ہے، اب میں اس کو نہیں چھوڑ سکتی۔

سوال یہ ہے کہ جب لڑکی نے بھاگ کر اس سے نکاح کرلیا تو کیا یہ نکاح درست ہے؟ لڑکی کے والدین  واپس آنے کا مطالبہ کررہے ہیں،   اب لڑکی کے والدین کو یہ نکاح قبول کرلینا چاہیے یا نہیں ؟

وضاحت: لڑکا خاندانی اور مالی اعتبار سے لڑکی سے بہت کمزور ہے، نیز تعلیمی قابلیت کے لحاظ سے بھی دونوں میں کوئی برابری نہیں؛ کیوں کہ لڑکی ڈاکٹر ہے اور لڑکے نے  بہت معمولی تعلیم حاصل کی ہوئی ہے۔

جواب

والد کی اجازت کے بغیر لڑکی کا گھر سے بھاگ کر از خود نکاح کرنا شرعاً اور اخلاقاً انتہائی نامناسب اقدام ہے،  شرافت کے بھی خلاف ہے۔تاہم اگر کسی عاقلہ بالغہ  لڑکی نے والدین کی مرضی کے بغیر شرعی ضابطہ کے مطابق گواہوں کی موجودگی میں ایجاب وقبول کرکے  نکاح کرلیا،  تو یہ  نکاح شرعًا منعقد ہوجائے گا ۔

البتہ اگرلڑکی نے اپنے  ولی کی اجازت کے بغیر    غیر کفو  میں نکاح کیا ہو،  تو   اولاد ہونے  سے پہلے پہلے لڑکی کے اولیاء کو کسی مسلمان جج کی   عدالت سے  رجوع کرکے اس نکاح کو فسخ کرانے کا  اختیار ہوگا، اور اگر کفو  میں  نکاح کیا ہو،یا   نکاح کے بعد اولاد پیدا ہوگئی ہو، یا حمل ظاہر ہوگیا ہو توپھر لڑکی کے اولیاء   کو  نکاح  فسخ کرانے کا اختیار نہیں ہوگا۔کفو کا مطلب یہ ہے کہ  لڑکا دین،دیانت، مال ونسب، پیشہ اور تعلیم میں لڑ کی کے ہم  پلہ ہو ، اس سے کم نہ ہو۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں  مذکورہ لڑکی کا  لڑکے کے  ساتھ  والدین کی اجازت کے بغیر نکاح کرلینے کا عمل نامناسب اور غلط تھا،  تاہم اگر لڑکی عاقلہ بالغہ ہے  اور گواہوں کی موجودگی میں نکاح ہوا ہے تو  یہ نکاح منعقد ہوگیا ہے، اب اگر   لڑکا، لڑکی کا کفو نہیں ہے، اور ابھی تک کوئی اولاد نہیں ہوئی ہے، اور لڑکی کے گھر والے اور رشتہ دار اس رشتہ پر رضامند نہیں ہورہے،  تو  مذکورہ لڑکی کے اولیاء کو عدالت سے رجوع کرکے نکاح فسخ کرانے کا حق حاصل ہے، عدالت سے نکاح فسخ کرائے بغیر نکاح ختم نہیں ہوسکے گا،البتہ  اگر لڑکی کے گھر والے بھی اپنی رضامندی ظاہر کردیں تو نکاح برقرار رہے گا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(فنفذ نكاح حرة مكلفة  بلا) رضا (ولي) والأصل أن كل من تصرف في ماله تصرف في نفسه وما لا فلا(وله) أي للولي (إذا كان عصبة) ولو غير محرم كابن عم في الأصح خانية، وخرج ذوو الأرحام والأم والقاضي (الاعتراض في غير الكفء) فيفسخه القاضي ويتجدد بتجدد النكاح (ما لم) يسكت حتى (تلد منه) لئلا يضيع الولد وينبغي إلحاق الحبل الظاهر به.

(قوله في غير الكفء) أي في تزويجها نفسها من غير كفء، وكذا له الاعتراض في تزويجها نفسها بأقل من مهر مثلها، حتى يتم مهر المثل أو يفرق القاضي كما سيذكره المصنف في باب الكفاءة."

(کتاب النکاح ، باب الولی، ج:3، ص:55، ط: دار الفکر)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"الحرة البالغة العاقلة إذا زوجت نفسها من رجل أو وكلت رجلاً بالتزويج فتزوجها أو زوجها فضولي فأجازت جاز في قول أبي حنيفة وزفر وأبي يوسف الأول سواء زوجت نفسها من كفء أو غير كفء بمهر وافر أو قاصر غير أنها إذا زوجت نفسها من غير كفء فللأولياء حق الاعتراض."

 (کتاب النکاح، فصل ولایه الندب والاستحباب فی النکاح، ج:2، ص:247،  ط: دار الکتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144607102220

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں