بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

لڑکی کی پہلی منگنی توڑکردوسری جگہ کرانا


سوال

میری بیٹی کی میں نے ایک لڑکے سے صرف منگنی کرائی تھی، باقاعدہ نکاح نہیں ہواتھا، نو سال کا ایک طویل عرصہ گزرجانے کے باوجود لڑکے نے نکاح پر آمادگی ظاہر نہیں کی تو پھر میں نے اپنی اس بیٹی کی دوسری جگہ منگنی کرادی، اب سابقہ منگنی والے لڑکے کا والد کہہ رہا ہے کہ ہمیں لڑکی دو، ہم اس کا نکاح کرانا چاہتے ہیں، جب کہ اب لڑکی بھی اس لڑکے سے نکاح کرنے پر راضی نہیں ہے اور وہ اس سے نکاح کرنے سے انکار کررہی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا لڑکی کے والد کا ایک جگہ منگنی ہونے کے باجودلڑکی کی رضامندی سے اس کی دوسری جگہ منگنی کروانا درست ہے یا نہیں؟ جب کہ لڑکی پہلی والی منگنی سے راضی بھی نہیں تھی۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں منگنی کے بعد نو سال کےعرصہ تک لڑکے یا اس کے گھر والوں کی جانب سے نکاح پر آمادگی ظاہر نہ کرنے کی بنا پر لڑکی کے والد کو شرعی طور پر یہ حق حاصل تھا کہ وہ اس منگنی کو توڑدے، کیوں کہ منگنی کی حیثیت شرعًا وعدۂ نکاح کی ہے، اور بوقتِ عذر منگنی کو توڑا جاسکتا ہے، لہٰذا اب جب لڑکی بھی پہلی جگہ رشتہ سے راضی نہیں ہے اور دوسری جگہ جہاں منگنی ہوئی ہےوہاں رشتہ پر راضی ہےتو سائل پر اس دوسری منگنی کو توڑ کر دوبارہ پہلے والے لوگوں سے رشتہ قائم کرنا لازم نہیں ہے، اور نہ ہی اس سے سائل گناہ گار ہوگا، نیز پہلے والے خاندان کا دوسری جگہ منگنی ہوجانے کے بعد دوبارہ رشتہ کا مطالبہ کرنا اور اس پر اصرار کرنا درست نہیں ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"قال في شرح الطحاوي: لو قال: هل أعطيتنيها؟ فقال: أعطيت إن كان المجلس ‌للوعد ‌فوعد، و إن كان للعقد فنكاح. اهـ."

(كتاب النكاح، ج:3، ص:11، ط:ایج ایم سعید کراتشي)

فتاوی دار العلوم دیوبند میں ہے:

’’منگنی ہماری اصطلاح میں وعدۂ نکاح کو کہتے ہیں، پس نکاح اس سے منعقد نہیں ہوتا، لہٰذا دوسری جگہ جو والدِ دختر نے نکاح اس کا کیا صحیح کیا۔‘‘

اور اسی میں ہے:

’’خطبہ اور منگنی وعدۂ نکاح ہے، اس سے نکاح منعقد نہیں ہوتا، اگرچہ مجلس خطبہ کی رسوم پوری  ہوگئی ہوں، البتہ وعدہ خلافی کرنا بدون کسی عذر کے مذموم ہے، لیکن اگر مصلحت لڑکی کی دوسری جگہ نکاح کرنے میں ہے تو دوسری جگہ نکاح لڑکی مذکورہ کا جائز ہے۔‘‘

(کتاب النکاح، ج:7، ص:109،110، طبع:دار الاشاعت كراچي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144601100403

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں