بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

لڑکی والوں کا لڑکے والوں کے استطاعت سے زیادہ مہر مقرر کرنے کا حکم


سوال

ایک جگہ نکاح کی بات چل رہی ہے، لیکن لڑکی والوں کی طرف مطالبہ ہے کہ مہر میں کم از کم دوتولہ سونا دیا جائے، جب کہ لڑکے والوں کی اتنی وسعت نہیں ہے ، اب دریافت یہ   کرنا ہے کہ لڑکی  کی جانب سے اتنے مہر کا مطالبہ کرنا شرعًاًکیا حیثیت رکھتا ہے، حالانکہ لڑکا اس کی ادائیگی  کی طاقت نہیں رکھتا ؟

جواب

مہر کی کم سے کم مقدار10 درہم ہے،اور  10 درہم کا وزن موجودہ زمانے کے رائج وزن کے اعتبارسے 2 تولہ ساڑھے سات ماشہ چاندی ہے ، ( اور گرام کے اعتبار سے  30 گرام 618 ملی گرام چاندی) ، مہرکی زیادہ سے زیادہ مقدار شریعت میں مقرر نہیں ہے ،البتہ  دونوں خاندان باہمی رضامندی سے جو مقدار طے کرلیں وہی مہر ہوگا،اور مہر طے کرنے میں بہتر یہی ہے کہ مہر اتنا زیادہ نہ ہو کہ جس کی ادائیگی  شوہر کی قدرت سے باہر ہو ،شوہر اس کا متحمل نہ ہو ،احادیث مبارکہ میں زیادہ مہر مقر کرنے کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی ہے  ،بلکہ کم مہر والے نکاح کو باعث برکت فرمایا ،مذکورہ تفصیل کی رو سے صورتِ  مسئولہ میں اگر شوہر  مہر میں دوتولہ سونے دینے کی استطاعت نہیں رکھتا تو  لڑکی والوں کے لیےمناسب ہے کہ  باہمی رضامندی سے مہر میں کمی  کرلیں ، اوراگرکم کرنے پر باہم رضامند نہ ہو  تو ایسی صورت میں   یہ بھی کیا جاسکتا ہے  کہ  وہ کچھ  مہر   معجل   اور   کچھ مہر مؤجل  رکھیں۔ مؤجل  کا مطلب  یہ  ہے کہ اس کی فوری  ادائیگی لازم نہیں، لڑکا حسبِ  سہولت ادا کرے، جس کی آخری مدت نکاح کا اختتام ہے۔

چنانچہ مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن عمر بن الخطاب قال: ألا لا تغالوا صدقة النساء؛ فإنها لو کانت مکرمة في الدنیا وتقوی عند اللہ لکان أولاکم بها نبي اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ما علمت رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم نکح شیئًا من نسائه ولا أنکح شیئا من بناته علی أکثر من اثنتي عشرة أوقیة".

(كتاب النكاح، باب الصداق، ج:2، ص:285، ط:رحمانيه)

حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ انہوں نے فرمایا: بہت زیادہ مہر مقرر نہ کرو، کیوں کہ بہت زیادہ مہر مقرر کرنا اگر کوئی فضیلت کی چیز ہوتی تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے لائق سب سے زیادہ تھے، حالاں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواجِ مطہرات اسی طرح اپنی صاحبزادیوں کا مہر بارہ اوقیہ (ایک سو اکتیس تولہ اور تین ماشہ چاندی یا ایک کلو پانچ سو تیس گرام نو سو ملی گرام چاندی) سے زیادہ مقرر نہیں کیا۔ 

صحیح مسلم میں ہے:

"عن أبي سلمة بن عبد الرحمن، أنه قال: سألت عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم: كم كان صداق رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قالت: «كان صداقه لأزواجه ثنتي عشرة أوقية ونشاً»، قالت: «أتدري ما النش؟» قال: قلت: لا، قالت: «نصف أوقية، فتلك خمسمائة درهم، فهذا صداق رسول الله صلى الله عليه وسلم لأزواجه."

(کتاب النکاح ،باب الصداق، ج: 4، ص: 528، ط:رحمانيه)

ترجمہ:’’حضرت ابوسلمہؒ سے مروی ہےکہ انہوں نے حضرت عائشہؓ سے دریافت کیاکہ رسول اللہ ﷺ کی ازواجِ مطہرات کا مہر کتنا تھا؟ فرمایا: آپ ﷺ نے بارہ اوقیہ اورنش مہر دیا تھا، پھر حضرت عائشہؓ نے فرمایا: تم کو معلوم ہے نش کیا ہوتا ہے؟ میں نے کہا: نہیں، حضرت عائشہؓ نے جواب دیا: آدھا اوقیہ (یعنی بیس درہم) اس طرح کل مہر پانچ سو درہم ہوا؛ یہی ازواج مطہرات کا مہر تھا‘‘۔

شعب الایمان میں ہے :

"عن عائشة -رضي اﷲ عنها- قال النبي ﷺ: إن أعظم النکاح برکةً أیسره مؤونةً."

( باب الاقتصاد في النفقة وتحریم أکل المال الباطل، ج5، ص254، ط، دارالکتب العلمیة بیروت )

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نکاح کو باعث برکت فرمایا ہے جس میں عورت کا مہر کم رکھا ہو۔ 

مرقاۃالمفاتیح میں ہے:

"(وعن عائشة) رضي الله عنها (قالت: «قال النبي صلى الله عليه وسلم الله عليه وسلم: إن أعظم النكاح بركة») أي: أفراده وأنواعه (أيسره) أي: أقله أو أسهله، (مؤنة) أي: من المهر والنفقة للدلالة على القناعة التي هي كنز لا ينفد ولا يفنى."

(كتاب النكاح، ج5، ص2049، ط:دار الفكر، بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144601101682

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں