کیا لڑکی کے گھر والوں کی مرضی کے بغیر لڑکی کا اپنی مرضی سے نکاح ہو سکتا ہے؟
واضح رہے کہ عاقلہ بالغہ لڑکی اپنے والدین اور گھر والوں کی رضامندی کے بغیر اپنا نکاح شرعی گواہوں کی موجودگی میں خود کرے تو شرعاً ایسا نکاح منعقد ہوجاتا ہے، البتہ والدین کی پسند کو اختیار کرنا سعادت کی بات ہے، کیوں کہ والدین اپنی اولاد کے محسن اور خیر خواہ ہوتے ہیں، ان کو اپنی اولاد سے طبعی محبت ہوتی ہے، اور اپنے تجربہ اور واقفیت کی بنا پر بہتر جگہ شادی کرتے ہیں، اس لیے ان کی پسند کو اختیار کرنے میں خیر ہے، لیکن اگر وہ والدین کی پسند کو ترجیح نہیں دے تو والدین کو اپنی پسند پر شادی کرنے کے لیے اصرار بھی نہیں کرنا چاہیے،نیز اب اگر لڑکی نے ولی کی اجازت کے بغیر غیر کفو میں نکاح کیا تو اولاد ہونے سے پہلے پہلے لڑکی کے اولیاء کو عدالت سے رجوع کرکے اس نکاح کو فسخ کرنے کا اختیار ہوتا ہے، اور اگر کفو میں نکاح کیا ہے توپھر لڑکی کے اولیاء کو وہ نکاح فسخ کرنے کا اختیار نہیں ہوتا ، اور کفو کا مطلب یہ ہے کہ لڑکا دین، دیانت، مال ونسب، پیشہ اور تعلیم میں لڑ کی کے ہم پلہ ہو ، اس سے کم نہ ہو۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(فنفذ نكاح حرة مكلفةبلا) رضا (ولي وله اذا كان عصبة الاعتراض في غير الكفء) فيفسخه القاضي ويتجدد بتجدد النكاح
(قوله في غير الكفء) أي في تزويجها نفسها من غير كفء، وكذا له الاعتراض في تزويجها نفسها بأقل من مهر مثلها، حتى يتم مهر المثل أو يفرق القاضي".
(كتاب النكاح، باب الولي، ج:3، ص:56، ط:سعيد)
فتاوی شامی میں ہے:
"إن الكفاءة في النكاح تكون في ... ست لها بيت بديع قد ضبط
نسب وإسلام كذلك حرفة ... حرية وديانة مال فقط."
(کتاب النكاح، باب الكفاءة، ج:3، ص:86، ط:سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144511101633
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن