لاٹری کا کیا حکم ہے؟
واضح رہے کہ اللہ رب العزت نے سود و قمار کی حرمت کو قرآن مجید میں نازل فرمایا ہے، ارشاد باری تعالٰی ہے:
"يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱتَّقُواْ ٱللَّهَ وَذَرُواْ مَا بَقِيَ مِنَ ٱلرِّبَوٰٓاْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُواْ فَأۡذَنُواْ بِحَرْبٖ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُوْلِهِۦۖ وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ أَمْوٰلِكُمْ لَا تَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ."(سورة المائدة، الأية:278، 279)
ترجمہ: اے ایمان والو الله سے ڈرو اور جو کچھ سود کا بقایا ہے اس کو چھوڑ دو اگر تم ایمان والے ہو، پھر اگر تم (اس پر عمل) نہ کرو گے تو اشتہار سن لو جنگ کا الله کی طرف سے اور اس کے رسول کی طرف سے (یعنی تم پر جہاد ہوگا) اور اگر تم توبہ کرلو گے تو تم کو تمھارے اصل اموال مل جاویں گے نہ تم کسی پر ظلم کرنے پاؤ گے اور نہ تم پر کوئی ظلم کرنے پائے گا ۔
اور قمار (جوئے) سے متعلق ارشاد ہے:
"يَٰٓأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلٰمُ رِجْسّ مِّنْ عَمَلِ الشَّيطٰنِ فَٱجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ."(سورة المائدة، الأية:90)
ترجمہ: اے ایمان والو بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور بت وغیرہ اور قرعہ کے تیر یہ سب گندی باتیں شیطانی کام ہیں سو ان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم کو فلاح ہو ۔
مروجہ لاٹری سود اور قمار پر مشتمل ہونے کی وجہ سے حرام ہے، تفصیل اس کی یہ ہے کہ شرعاً "سود" اس اضافے کو کہا جاتا ہے، جو ہم جنس مال (نقدی، مکیلی یا موزونی چیز ) کے تبادلے میں بغیر عوض آئے، اور عقد کے وقت مشروط ہو، پس لاٹری کی خریداری پر آنے والی لاگت سے زائد جتنی بھی رقم انعام کے نام پر موصول ہوتی ہے، وہ ساری کی ساری بلا عوض ہے، پس یہ زائد رقم عین سود ہونے کی وجہ سے لینا حرام ہوگا۔
جبکہ شرعاً "جوا" مال کو واپس ملنے نہ ملنے کے خطرہ میں ڈالنے کو کہا جاتا ہے، پس لاٹری میں لگائی گئی کل رقم ڈوب جانے کا قوی اندیشہ ہوتا ہے، اور نہ ڈوبنے کا بھی امکان ہوتا ہے، لہذا مروجہ لاٹری لینا، اور اس پر انعام حاصل کرنا حرام ہوگا، جیسا کہ مفتی کفایت اللہ صاحبؒ نے لکھا ہے کہ:
”یورپ نے لاٹری کے ہزاروں طریقے ایجاد کئے ہیں، جو اصولاً قمار ہی کے ماتحت داخل ہو سکتے ہیں؛ کیوں کہ عقود شرعیہ میں سے وہ کسی عقد میں نہیں آتے ( جو شخص ایک روپیہ کا منی آرڈر پہلے شخص کے پاس بھیجتا ہے، اور پھر اس کی رسید اور فارموں کی قیمت کمپنی کو بھیج کر فارم منگا تا ہے، اس کا قصد ایک روپیہ سے بہت روپیہ حاصل کرنا ہوتا ہے، یہ تو ربوا ہے، پھر ان روپوں کا حصول فارم جاری ہونے پر موقوف ہے، خدا جانے وہ جاری ہوں یا نہ ہوں جاری، ہو گئے تو روپیہ ملا، ور نہ نہیں یہ قمار ہے، اس لیے یہ معاملہ اور اس کی شرکت ناجائز ہے۔“
(کتاب الحظر والاباحۃ، ج:9، ص: 227، ط: دار الاشاعت)
سابق مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی شفیع صاحبؒ نے اپنے رسالہ میں لکھا ہے کہ:
قمار کی مروجہ صورتیں:
"آج کل وبا کی طرح قمار کی یہ صورت عام ہوگئی ہے کہ جو حل معمہ کے عنوان سے بہت سے اخباروں اور ماہوار رسالوں کا بڑا کاروبار بنا ہوا ہے، معمہ کی مختلف صورتیں لکھ کر اشتہار دیا جاتا ہے کہ جو شخص اس کا کوئی حل کرکے بھیجے اور اس کے ساتھ اتنی فیس مثلاً ایک روپیہ فیس کا بھیجے، تو جن لوگوں کے حل صحیح ہوں گے، ان میں سے انعام اس شخص کو دیا جائے گا، جس کا نام لاٹری یا قرعہ اندازی کے ذریعہ نکل آئے۔۔۔۔۔کھلا ہوا قمار(جوا) ہے کہ ایک شخص اپنا فیس کا ایک روپیہ اس موہوم طریق پر ڈالتا ہے کہ یا تو یہ روپیہ بھی ضائع ہوگیا اور یا ہزاروں روپیہ لے کر آیا اسی نام شرع اسلام میں جوا یا قمار ہے۔“
(احکام القمار، ج: 2، ص: 349، ط: دار العلوم کراچی)
مزیدتفصیل کے لیے مفتی شفیع صاحبؒ کا رسالہ”احکام القمار“ کا مطالعہ کر لیا جائے، جو کہ ”جواہر الفقہ“ میں بھی موجود ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله: لأنه يصير قمارًا) لأن القمار من القمر الذي يزداد تارةً و ينقص أخرى، وسمي القمار قمارًا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص، و لا كذلك إذا شرط من جانب واحد لأن الزيادة و النقصان لاتمكن فيهما بل في أحدهما تمكن الزيادة، وفي الآخر الانتقاص فقط فلاتكون مقامرة لأنها مفاعلة منه زيلعي."
(كتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع، ج:6، ص:403، ط: سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144605101378
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن