بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1446ھ 25 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

لے پالک کے لیے وصیت اور ہبہ کاحکم


سوال

میرے بھائی کا انتقال ہوگیا ہے،انتقال کے  وقت نہ اس کے والدین تھے نہ ہی کوئی اولاد ، صرف ایک بیوہ ایک لے پالک بیٹا اور بہن بھائی تھے،میرے بھائی نے اپنی زندگی میں اس لے پالک بیٹے اور بیوی کو کچھ جائیداد دی تھی جس کی تفصیل یہ ہے :

الف۔ایک بڑی دکان ہے جوبیٹےکے نام کی تھی ،لیکن مرحوم کی زندگی میں دونوں ایک ساتھ اس میں کام کرتے تھے جب وہ بیمار ہو گئے تو بیٹا سنبھالنے لگا۔ 

ب۔  ایک چھوٹی دکان ہے،جوکہ مرحوم نے وصیت کی تھی کہ میرے مرنے کے بعدیہ چھوٹی دکان اس لے پالک بیٹے کو دی جائے  ۔

ج۔ایک پلاٹ ہے جو کہ بیٹے کے نام کر دیاتھا اور چابی وغیرہ بھی اسی کو دے دی گئی تھی اور وہی سنبھال رہا تھا ۔

د۔ایک گھر ہے جو بیوی کے نام تھا اوراس میں سب لوگ ساتھ رہ رہے تھے ۔

اب اس کے علاوہ اور بھی جائیداد ہے جن میں لے پالک بیٹا اپنی والدہ کا حصہ مانگ رہا ہے،جبکہ والدہ اس کی حقیقی نہیں ہے ۔اب میرا سوال یہ ہے کہ

1۔مذکورہ جائید اد  سب ان کی ملکیت شمار ہوگی؟

2۔اب لے پالک بیٹا جو مزید حصے کا مطالبہ کرتا ہے اس کا اوربیوہ کا بقیہ میراث میں  شرعی حصہ کیا ہے؟

3۔مرحوم اپنی زندگی میں اپنے لے پالک بیٹے کو کتنا حصہ دے سکتا تھا۔ 

4۔مرحوم کو والد کی میراث سے ایک دکان اور دو گودام ملے تھے مرحوم نےوہ بھتیجوں کے نام کر دیے اور ان کو قبضہ بھی   دے دیا تھااور چابی وغیرہ بھی ان کے پاس تھی، او ر اس پر مرحوم کی بیوہ اور لے پالک گواہ بھی ہیں ان کو واقعی دیا تھا، لیکن ان کے نام پر رجسٹرنہیں کیا تھا ۔یہ کس کی ملکیت ہیں ۔

جواب

واضح رہے کہ لے پالک  کی حیثیت از روئے شرع حقیقی اولاد کی طرح نہیں ہوتی،پس لے پالک بیٹا نہ تو حقیقی اولاد کی طرح وارث بنتا ہے اور نہ ہی اس کا نسب اپنے حقیقی والد کے علاوہ گود لینے والےسے ثابت کیاسکتاہے۔اس تمہید کے بعدسائل کے سوالات کے جوابات نمبر وار درج ذیل ہیں ۔

1۔مذکورہ جائیداد میں لے پالک اور مرحوم کی بیوہ کی ملکیت کی تفصیل:

الف۔جائیداد کسی کے نام کرنے سے ملکیت کا ثبوت  شرعا نہیں ہوتا، یہاں تک کہ دینے والا  پورے طور پر قبضہ اور تصر ف کا اختیار نہ دے دے؛لہذا مرحوم نے مذکورہ دوکان پر چوں کہ لے پالک بیٹے کو تصرف کا اختیار نہیں دیا تھا، اس لیے یہ  دوکان لے پالک کے نام کیے جانے کے باوجود شرعاً اس کی ملکیت ثابت نہ ہوسکی، نام کرنے والا ( مرحوم)  ساری زندگی  اس دوکان کا مالک رہا،  اور اس کی وفات کے بعد مرحوم  کے ترکہ کا حصہ ہوگی، جسے مرحوم کے ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کیا جائے گا۔

ب۔چھوٹی دوکان لے پالک کو دینے کی جو وصیت کی تھی اگر وہ مرحوم کے کل ترکہ کے ایک تہائی یا اس سے کم ہو،تو مذ کورہ دوکان مرحوم کی وصیت کے مطابق اس کے لے پالک بیٹےکو دے دی جائے گی،بصورت دیگر اگر مذکورہ دوکان  کی مالیت مرحوم کے ترکہ کے ایک تہائی سے زائد ہو تو مرحوم کی وصیت ایک تہائی میں نافذ کی جائے گی، زائد حصہ مرحوم کے ترکہ میں شامل ہو گا،جو حصص شرعیہ کے تناسب سے مرحوم کے تمام ورثاءمیں تقسیم کیا جائے گا ۔

ج۔مرحوم نے جو پلاٹ لے پالک بیٹے کے نا م مع  قبضہ اور مالکانہ تصرف کاحق بھی دے دیا تھا،تو یہ پلاٹ لے پالک بیٹے کی ملکیت شمار ہو گا ، اس میں مرحوم کے ورثاء کا شرعاً کوئی حق نہیں ہو گا۔

د۔ مرحوم نےاپنا رہائشی گھر جو  بیوی کے نام کیا تھا لیکن اس گھر میں وہ خود ساری زندگی رہائش پذیر رہا،بیوی کوشرعی طور پر  قبضہ اور  تصرف کا اختیار نہیں تھا،جس کے سبب مذکورہ گھر مرحوم کی وفات تک اس کی ہی ملکیت رہا،محض نام کرنے کی وجہ سے شرعابیوی مالک نہ بنی، پس شوہر کی وفات کے بعد مذکورہ گھرمرحوم کے ترکہ میں شامل ہوگا،اوربیوہ سمیت تمام ورثاء میں ضابطہ وراثت کے مطابق تقسیم کیاجائے گا۔ 

2۔مرحوم نے اپنے ترکہ میں جو کچھ چھوڑاہو، اسے مرحوم کے تمام شرعی وارثوں  میں تقسیم کرناشرعاضروری ہوگا،مرحوم چوں کہ لاولدتھے؛ لہذا مرحوم کی بیوہ کا اس کے ترکہ میں ایک چوتھائی حصہ ہوگا، بقیہ جو کچھ بچےوہ مرحوم کے بھائی بہن میں ایک اور دو کے تناسب سےتقسیم کیا جائے گا،جبکہ مرحوم کےلے پالک کا اس کے ترکہ میں وراثتی کوئی حصہ نہیں ہو گا۔

3۔ہرشخص اپنی زندگی میں اپنے مال اور جائیداد میں تصرف کاپورااختیار رکھتا ہے؛لہذاوہ اپنی ملکیت میں سے بقدرِضرورت رقم  نکالنے کے بعد کسی کو جتنا بھی دینا چاہے دے سکتا ہے،البتہ اپنے ورثاء کو محروم کرنے کی نیت نہیں ہونی چاہیے۔

4۔مرحوم نے جو دوکان اور دو گودام اپنی حیات میں بھتیجوں کو ہبہ کرنے کے بعد،مالکانہ حقوق کےساتھ بھتیجوں کے قبضہ میں دے دیے تھے، وہ  دکان اور دونوں گودام بھتیجوں کی ملکیت شمار ہوں گے، اگرچہ مرحوم  نے زندگی میں ان کے نام رجسٹر نہ کرا ئے ہوں، پس  مذکورہ دوکان اور دونوں گودام مرحوم کی میراث میں تقسیم نہیں کیے جائیں گے۔ 

ارشاد باری تعالی ہے:

وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ذَلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْوَاهِكُمْ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ (4) ادْعُوهُمْ لآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُوراً رَحِيماً(سورة الاحزاب، 4،5)

ترجمہ: "اورنہ تمہارے لے پالکوں کوتمہارے بیٹے بنایا ، یہ سب تمہارے منہ کی باتیں ہیں اور اللہ تعالی توسچی بات فرماتا ہے اور وہ سیدھا راستہ دکھاتا ہے ۔مومنو! لے پالکوں کو ان کے( اصلی ) باپوں کےنام سے پکارا کرو کہ اللہ کےنزدیک یہ بات درست ہے۔اگر تم کو ان کےباپوں کے نام معلوم نہ ہوں تو دین میں وہ تمہارے بھائی اور دوست ہیں اور جو بات تم سےغلطی سےہو اس میں تم پر کچھ گناہ نہیں لیکن جو قصد دل سے کرو ( اس پر مؤاخذہ ہے )اوراللہ بڑا بخشنے ولا نہایت  مہربان ہے ۔‘‘

تفسیر مظہری میں ہے:

"فلا يثبت بالتبني شىء من احكام النبوة من الإرث وحرمة النكاح وغير ذلك."

(الاحزاب، ج:7، ص:284، ط: المکتبة الرشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وتجوز بالثلث للأجنبي) عند عدم المانع (وإن لم يجز الوارث ذلك لا الزيادة عليه»إلا أن تجيز ورثته بعد موته)."

(كتاب الوصايا، ج:6، ص:650، ط سعید)

المحیط البرہانی میں ہے:

"وعن ‌أبي ‌يوسف ‌لا ‌يجوز للرجل أن يهب لامرأته، أو أن تهب لزوجها ولأجنبي داراً وهما فيها ساكنان، كذلك الهبة للولد الكبير؛ لأن الواهب إذا كان في الدار فيده بائن على الدار، وذلك يمنع تمام يد الموهوب له."

(کتاب الھبة والصدقة، الفصل الثالث في الھبة من الصغیر، ج: 6، ص: 251، ط : دار الکتب العلمیة)

شرح المجلۃ الاحکام میں ہے:

"كل يتصرف في ملكه كيفما شاء."

(الکتاب العاشر الشرکات، الفصل الأول في بيان بعض القواعد المتعلقة بأحكام الأملاك، المادۃ:1192،ج:3، ص:201  ط دارالجیل)

وفیہ ایضاً:

"الهبة :لكل شخص أن يهب ماله لمن شاء أو لبعض ورثته وأن يسلمه."

(الکتاب العاشر الشرکات، الفصل الأول في بيان بعض القواعد المتعلقة بأحكام الأملاك، المادۃ: 1192، ج: 3، ص: 204، ط: دارالجیل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144610100752

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں