بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1446ھ 29 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

لے پالک کی ولدیت کے خانے میں حقیقی والد کا نام لکھنا ضروری ہے


سوال

میری عمر 20 سال ہے، میں بچپن سے اپنے تایا کے گھر رہ رہا ہوں،سال 2020 میں میرے سگے والد کا انتقال ہو گیا،پھر 2023 میں میرے تایا اور میری سگی ماں نے مجھے بتایا کہ میں تایا کا بیٹا نہیں ہوں۔

اب آپ بتائیں کہ میں اپنے نام کے ساتھ تایا کا نام لکھ سکتا ہوں یا اپنے اصلی (سگے) والد کا نام لکھنا ضروری ہے؟

 

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کےلیے اپنی ولدیت میں اصل والد کا نام لکھنا ضروری ہے، تایا جنہوں نے پرورش کی ہے ان کے ساتھ ادب، اور حسن سلوک کا معاملہ جاری رکھےتاہم ولدیت میں اصل والد کے نام کا اندراج کریں۔

قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے:

"﴿وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ذَلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْوَاهِكُمْ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ (4) ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا (5)﴾ [الأحزاب: 4-5] "

" ترجمہ: اور تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا (سچ مچ کا) بیٹا نہیں بنادیا یہ صرف تمہارے منہ سے کہنے کی بات ہے اور اللہ حق بات فرماتا ہے اور وہی سیدھا راستہ بتلاتا ہے ، تم ان کو ان کے باپوں کی طرف منسوب کیا کرو یہ اللہ کے نزدیک راستی کی بات ہے اور اگر تم ان کے باپوں کو نہ جانتے ہو تو وہ تمہارے دین کے بھائی ہیں اور تمہارے دوست ہیں اور تم کو اس میں جو بھول چوک ہوجاوے تو اس سے تم پر کچھ گناہ نہ ہوگا لیکن ہاں دل سے ارادہ کر کے کرو (تو اس پر مؤاخذہ ہوگا)، اور اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے۔ (از بیان القرآن)"

روح المعانی میں ہے:

"ويعلم من الآية أنه لا يجوز إنتساب الشخص إلى غير أبيه وعد ذلك بعضهم من الكبائر لما أخرج الشيخان وأبو داؤد عن سعد بن أبي وقاص أن النبي صلى الله تعالى عليه وسلم قال : من إدعى إلى غير أبيه وهو يعلم أنه أبيه فالجنة عليه حرام."

(سورۃ الاحزاب،ج21،ص149،ط: دار إحياء التراث العربي)

سنن أبي داود میں ہے:

"حدثني سعد بن مالك، قال: سمعته أذناي ووعاه قلبي من محمد صلى الله عليه وسلم، أنه قال:" من ادعى إلى غير أبيه، وهو يعلم أنه غير أبيه، فالجنة عليه حرام" قال: فلقيت أبا بكرة، فذكرت ذلك له، فقال: سمعته أذناي ووعاه قلبي من محمد صلى الله عليه وسلم."

(‌‌أبواب النوم،باب في الرجل ينتمي إلى غير مواليه،ج:7،ص:436، ط:دار الرسالة العالمية)

ترجمہ :"سعد بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے کانوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے اور میرے دل نے یاد رکھا ہے، آپ نے فرمایا: ”جو شخص جان بوجھ کر، اپنے آپ کو اپنے والد کے علاوہ کسی اور کی طرف منسوب کرے تو جنت اس پر حرام ہے“۔ عثمان کہتے ہیں: میں سعد رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث سن کر ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے اس حدیث کا ذکر کیا، تو انہوں نے بھی کہا: میرے کانوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، اور میرے دل نے اسے یاد رکھا۔"

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144610100960

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں