بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1446ھ 21 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

لوڈر مشین میں شرکت کاحکم


سوال

ایک شخص نےاپنے  لیے لوڈ ر مشین خریدی،بعد میں ایک شخص نے لوڈر مشین کے مالک سے کہا کہ آپ مجھے اس مشین میں  شریک کرلو، تو لوڈر مشین کے مالک نےکہا  کہ ٹھیک ہے، لیکن اس نے پیسے وغیرہ کچھ نہیں دیے ،تو کیا اس طرح زبانی کلامی شرکت درست ہوئی یا نہیں ؟نیز اگر دوسر ا شخص ایک سال بعد یا کچھ عرصہ بعد پیسے دےدے تو کیا شرکت درست ہوجائے گی ؟

جواب

واضح رہے کہ شرکت صحیح ہونے کے لیے جانبین کے سرمایہ کانقدی کی صورت میں ہوناضروری ہے، لہذا صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص نے لوڈر مشین کےمالک کو صرف اتنا کہا کہ  آپ مجھے اس مشین  میں  شریک کرلیں،تو اس نے جو اب میں کہا  کہ ٹھیک   ہے،لیکن نہ تو شرکت میں حصہ کا تعین ہوا کہ شرکت  مشین کے کتنے حصے کس کی ملکیت میں ہیں اورنہ ہی مذکورہ شخص  نے لوڈر مشین کے مالک کو کوئی رقم حوالہ کی،لہذا محض مذکورہ ایجاب وقبول کی بناء پر  مذکورہ شرکت کا معاملہ  درست  نہیں  ہوا،  بلکہ اگر ایک سال بعد یا کچھ عرصے بعد رقم بھی ادا کرے، تب بھی شرکت درست نہیں ہوگی ،البتہ  اس شرکت کو درست کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ لوڈر مشین کا مالک اپنی مشین دوسرے شخص کو آدھی فروخت کرکے اس کی قیمت لے لے تو  اس طرح شرکت درست ہوجائے گی ۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"(أما) الشركة بالأموال فلها شروط: (منها) أن يكون رأس المال من الأثمان المطلقة وهي التي لا تتعين بالتعيين في المفاوضات على كل حال، وهي الدراهم والدنانير، عنانا كانت الشركة أو مفاوضة عند عامة العلماء، فلا تصح الشركة في العروض، وقال مالك - رحمه الله -: هذا ليس بشرط وتصح الشركة في العروض، والصحيح قول العامة."

(كتاب الشركة، فصل في بيان شرائط انواع الشركة، ج:6، ص:59، ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"الشركة إذا كانت بالمال لا تجوز عنانا كانت أو مفاوضة إلا إذا كان رأس مالهما من الأثمان التي لا تتعين في عقود المبادلات نحو الدراهم والدنانير، فأما ما يتعين في عقود المبادلات نحو العروض والحيوان فلا تصح الشركة بهما سواء كان ذلك رأس مالهما أو رأس مال أحدهما، كذا في المحيط ... والحيلة في جواز الشركة في العروض وكل ما يتعين بالتعيين أن يبيع كل واحد منهما نصف ماله بنصف مال صاحبه حتى يصير مال كل واحد منهما نصفين وتحصل شركة ملك بينهما ثم يعقدان بعد ذلك عقد الشركة فيجوز بلا خلاف، كذا في البدائع ولو كان بينهما تفاوت بأن تكون قيمة عرض أحدهما مائة وقيمة عرض صاحبه أربعمائة يبيع صاحب الأقل أربعة أخماس عرضه بخمس عرض الآخر فصار المتاع كله أخماسا، كذا في الكافي، وكذلك إذا كان لأحدهما دراهم وللآخر عروض ينبغي أن يبيع صاحب العروض نصف عروضه بنصف دراهم صاحبه ويتقابضان ثم يشتركان إن شاءا مفاوضة، وإن شاءا عنانا، كذا في المحيط."

(كتاب الشركة، الباب الثاني، الفصل الاول، ج:2، ص:307، ط:دارالفكر)

فتح القديرمیں ہے :

"لا تجوز عندنا بالعرض لا يجوز أن يكون رأس مال أحدهما عرضا والآخر دراهم أو دنانير، ولم يشترط حضور المال وقت العقد وهو صحيح، بل الشرط وجوده وقت الشراء وهو صحيح، بل الشرط وجوده وقت الشراء".

‌(کتاب الشرکة، فصل ولا تنعقد الشركة إلا بالدراهم والدنانير والفلوس النافقة، ج : 6، ص : 157، ط  : دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144605101982

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں