لوگ دوسری شادی کیوں کرتےہیں؟
لوگوں میں کون دوسری شادی کیوں کرتےہیں،اس کی وجہ تووہی بتلاسکتےہیں،یہ وجہ بتانادار الافتاءکاکام نہیں ہے۔
باقی اگرسائل کامقصددوسری شادی کی شرعی حیثیت کےبارےمیں ہوتوشرعی اعتبارسےجوشخص دوسری شادی کرناچاہتاہواوروہ دونوں کےحقوق کی ادائیگی اورپھران کےدرمیان عدل وانصاف اوربرابری کانظام قائم رکھ سکتاہوتواس کےلئےدوسری شادی جائزہے،وگرنہ جائزنہیں۔
البتہ بعض لوگوں کو اپنےمختلف اعذاراورمصلحتوں کی بناءپردوسری شادی کی حاجت ہوسکتی ہے مثلا:
1)بعض مرتبہ بیوی ہونےکےباوجوداولادنہیں ہوتی،یعنی وہ بانجھ ہوتی ہےیاکوئی ایسی بیماری ہوتی ہےجس کی وجہ سےاولادہونابظاہرمشکل ہوتاہے اورشوہراولادکاخواہش مندہوتاہے،تودوسری شادی کرنےمیں ہی اس کاحل نکل سکتاہے۔
2)عورت ہروقت ہمبستری کے قابل نہیں ہوتی،اسے لازمی طور پرمہینہ میں کچھ دن ایسے آتے ہیں جن میں مرد کے لیے عورت کے ساتھ ہمبستری کرنا شرعاً جائز نہیں ہوتا، اس طرح حمل کے ایام میں بھی بعض اوقات عورت اور جنین (بچہ) کی صحت کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ شوہر کے ساتھ ہمبستر نہ ہو،نیزوضع حمل کے بعد بھی کچھ مدت تک عورت کو مرد کی صحبت سے پرہیز کرنا لازمی ہے، اب ان اوقات میں عورتوں کے لیے تو یہ قدرتی موانع واقع ہوجاتے ہیں، مگر خاوند کے لیے کوئی امر مانع نہیں ہوتا، اب اگر کسی مرد کو شہوت کا غلبہ ان اوقات میں ہو تو سوائے دوسری،تیسری شادی کے اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔
3)بعض مردوں میں قوتِ باہ زیادہ ہوتی ہے،ایک عورت سےاسےشکم سیری نہیں ہوتی،اگروہ دوسری شادی نہ کرےتووہ زناکاری میں مبتلاہوسکتاہے،لہٰذازناکاری کےانسدادکابہترین علاج دوسری شادی کرناہے۔
4)عام طورپرعورتوں کی تعدادزیادہ ہوتی ہے،دوسری شادی کرنےمیں ان عورتوں کانکاح کامسئلہ آسانی کےساتھ حل ہوجاتاہے،اورایسی بہت ساری عورتیں باعفت اپنی زندگیاں گزارسکتی ہیں۔
جب کہ بعض لوگ بلاضرورت محض عیاشی کےلیےدوسری شادی کرکےپہلی بیوی کواس کےجائزحقوق سےمحروم رکھتےہیں،تویہ طریقہ شرعاًناجائزہے۔
قرآن مجیدمیں ہے:
" وَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ذَلِكَ أَدْنَى أَلاَّ تَعُولُوا"(سورة النساء، الآية:3، الجزء:4)
ترجمہ:"عورتوں سے جوتم کو پسند ہوں نکاح کرلو دو دوعورتوں سے اور تین تین عورتوں سے اور چارچار عورتوں سے، پس اگر تم کو احتمال اس کا ہو کہ عدل نہ رکھوگے تو پھر ایک ہی بی بی پر بس کرو یا جو لونڈی تمہاری ملک میں ہو وہی سہی، اس امرمذکور میں زیادتی نہ ہونے کی توقع قریب ترہے".(از بیان القرآن لاشرف علی التھانویؒ)
تفسیرالرازی میں ہے:
"قوله: فانكحوا أمر إباحة".
(سورة النساء، الآية:3، ج:9، ص:486، ط:دار إحياءالتراث العربي)
سنن ابی داؤد میں ہے:
"عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "من كانت له امرأتان، فمال إلى أحدهما جاء يوم القيامة وشقه مائل".
(كتاب النكاح، باب القسم بين النساء، الرقم:2133، ج:3، ص:469، ط:دارالرسالة العالمية)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وإذا كانت له امرأة وأراد أن يتزوج عليها أخرى وخاف أن لا يعدل بينهما لا يسعه ذلك وإن كان لا يخاف وسعه ذلك".
(كتاب النكاح، الباب الحادي عشرفي القسم، ج:1، ص:341، ط:مكتبه ماجديه، باكستان)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144603101687
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن