لوگوں کے برے رویےاور طنزیہ باتوں کی وجہ سے دل بہت خراب ہو جاتاہےاور کبھی دل کرتا ہے کہ میں بھی باتیں سنا دوں اور دل کی بھڑاس نکال دوں، لیکن کہنےکی ہمت نہیں ہوتی ،پھر سارا دن ان لوگوں کی باتوں کو سوچتی اور روتی ہوں کہ اتنی کمزور کیوں ہوں؟میں کیا کرو ں؟ کیسے ڈیل کرو ں؟
لوگوں سے برارویہ رکھنےاورطنزیہ باتیں کرنے کی دین ِاسلام میں بالکل گنجائش نہیں ہے جولوگ ان برے افعال میں مبتلاء ہیں ان پر ان کو چھوڑنالازم ہے اور جس کوتکلیف پہنچائی ہے اس سے معافی مانگنابھی ضروری ہے ،جن لوگوں کوتکلیف ہوئی وہ اگر بدلہ لیں تو اس کی بھی گنجائش ہے، لیکن معا ف کرنا زیادہ بہتر ہے ،لہذاصورتِ مسئولہ میں سائلہ اگردل کی بھڑاس نکالنے کےلیے لوگوں کے ان برےرویوں اورطنزیہ باتوں کا اتناہی جواب دے جو اسے کہاگیا تو اس کی بھی گنجائش ہے اور اگرمعاف کردے تو زیادہ بہتر ہے، نیز اس طرح کے لوگوں کے ساتھ اگر رہناہوتو ان سے خندہ پیشانی سے پیش آیاجائے شاید کہ وہ لوگ اپنی بری حرکتوں کوآپ کے حسن سلوک کی وجہ سے ہمیشہ ہمیشہ کےلیے بدل لیں اوریہ کام آپ کےلیے باعث ِاجر ہوگا۔
ارشادخداوندی ہے:
وَ جَزٰٓؤُا سَیِّئَةٍ سَیِّئَةٌ مِّثْلُهَاۚ-فَمَنْ عَفَا وَ اَصْلَحَ فَاَجْرُهٗ
ترجمہ:اوربرائی کابدلہ برائی ہے ویسی ہی، پھر جوشخص معاف کردے اوراصلاح کرے تو اس کاثواب اللہ کے ذمہ ہے(بیان القرآن)
تفسیرمظہری میں ہے:
"فالانتصار والانتقام من غير اعتداء له منه جائز لكن العفو والإصلاح ودفع السيئة بالحسنة أفضل والله اعلم"
(ج:8،ص:329،ط:الرشدية - الباكستان)
تفسیرروح المعانی میں ہے:
"فإذا الذي بينك وبينه عداوة كأنه ولي حميم بيان لنتيجة الدفع المأمور به أي فإذا فعلت ذلك صار عدوك المشاق مثل الولي الشفيق. قال ابن عطية: دخلت (كأن) المفيدة للتشبيه لأن العدو لا يعود وليا حميما بالدفع بالتي هي أحسن وإنما يحسن ظاهره فيشبه بذلك الولي الحميم ولعل ذلك من باب الاكتفاء بأقل اللازم وهذا بالنظر إلى الغالب وإلا فقد تزول العداوة بالكلية بذلك كما قيل:إن العداوة تستحيل مودة … بتدارك الهفوات بالحسنات"
(ج:12، ص:375، ط:دار الكتب العلمية-بيروت)
صحیح مسلم میں ہے:
عن أبي هريرة. قال:قال رسول الله صلى الله عليه وسلم "لا تحاسدوا. ولا تناجشوا، ولا تباغضوا، ولا تدابروا، ولا يبع بعضكم على بيع بعض. وكونوا، عباد الله! إخوانا. المسلم أخو المسلم. لا يظلمه، ولا يخذله، ولا يحقره. التقوى ههنا" ويشير إلى صدره ثلاث مرات "بحسب امرئ من الشر أن يحقر أخاه المسلم. كل المسلم على المسلم حرام دمه وماله وعرضه".
(کتاب البر و الصلة، باب تحریم ظلم المسلم وخذله، ج:4، ص:1986، ط:دار إحياء التراث العربي بيروت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144609100487
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن