متبنی منہ بولے بیٹے کا صدقہ فطر کی ادائیگی کس کے ذمہ ہو گی حقیقی والد کے یا جس کی پرورش میں ہے؟ اور کیا ایک دوسرے کی جگہ ادا کر سکتے ہیں صدقہ فطر کی ادائیگی کا سبب کیا ہے؟
شریعتِ مطہرہ میں لے پالک اور منہ بولے بیٹے کی حقیقی اولاد کی طرح حیثیت نہیں ہے، اور کسی کو منہ بولا بیٹا بنانے سے وہ حقیقی بیٹا نہیں بن جاتا اور نہ ہی اس پر حقیقی اولاد والے احکام جاری ہوتے ہیں،لہذا لے پالک بچہ اگر نابالغ ہے اور اس کے پاس نصاب کے بقدر مال موجود ہے تو اس کے مال سے صدقہ فطر ادا کردیا جائے گا اور اگر اس کے پاس نصاب کے بقدرمال موجود نہیں ہے تو اس کا حقیقی والد اپنے بچہ کا صدقہ فطر ادا کرے گا بشرط یہ ہے کہ بچہ کا والد صاحب نصاب ہو۔تاہم اگر پرورش کرنے والا بھی خود سے بچہ کا صدقہ فطر ادا کردے تو صدقہ فطر ادا ہوجائے گا۔
کسی دوسرے کی جانب سے اس کی اجازت سے صدقہ فطر ادا کرسکتے ہیں۔
صاحب نصاب کے لیے صدقۂ فطر اپنی طرف سے بھی ادا کرنا واجب ہے،اور اپنے عیال میں اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے بھی ادا کرنا واجب ہے، نابالغ اولاد اگر مال دار ہو تو ان کے مال سے ادا کرے اور اگر مال دار نہیں ہے تو اپنے مال سے ادا کرے۔ بالغ اولاد اگر مال دار ہے تو ان کی طرف سے صدقۂ فطر ادا کرنا باپ پر واجب نہیں،اسی طرح بیوی کا صدقہ فطر بھی شوہر کے ذمہ نہیں ہے،تاہم اگر باپ اپنے بالغ بچوں کی جانب سے یا شوہر اپنی بیوی کی جانب سے صدقہ فطر دینا چاہے تو شرعا درست ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وتجب عن نفسه وطفله الفقير كذا في الكافي والمعتوه والمجنون بمنزلة الصغير سواء كان الجنون أصليا أو عارضيا، وهو الظاهر من المذهب كذا في المحيط."
(کتاب الزکاۃ،الباب الثامن في صدقة الفطر،ج1،ص192، ط: دار الفکر)
وفیہ ایضاً:
"ولا يجوز أن يعطي عن غير عياله إلا بأمره كذا في المحيط.، ولا يؤدي عن أجداده وجداته ونوافله كذا في التبيين .... والأصل أن صدقة الفطر متعلقة بالولاية والمؤنة فكل من كان عليه ولايته، ومؤنته ونفقته فإنه تجب عليه صدقة الفطر فيه، وإلا فلا كذا في شرح الطحاوي."
(کتاب الزکاۃ،الباب الثامن في صدقة الفطر،ج1،ص193، ط: دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144609101975
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن