بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

لے پالک بیٹی کا وراثت میں حصہ نہیں/ وراثت کے مستحق مورث کی موت کے وقت موجود زندہ ورثاء ہیں/ ترکہ میں سے صدقہ کرنا ضروری نہیں


سوال

میرے شوہر کاانتقال اکتوبر2020ء میں ہوا، ہماری کوئی اولاد نہیں ہے، البتہ میرے شوہر نے میرے بھائی کی ایک بیٹی کو گود لیاتھا، یہی ہماری لے پالک اولاد ہے، شوہر کے ورثاء میں  بیوہ(جو کہ میں خود ہوں) ایک بھائی اور ایک بہن ہیں، والدین شوہر کی زندگی میں ہی انتقال کرگئے تھےاور شوہر کے مذکورہ بھائی، بہن کے علاوہ تین بھائی اور  ایک بہن کاانتقال بھی شوہر کی زندگی میں ہوچکاتھا، ورثاء میں حصّوں کی تقسیم کس طرح ہوگی؟ جو بہن بھائی مرحوم شوہر کی زندگی میں انتقال کر گئےتھے کیاترکہ میں ان کا حصّہ بنے گا؟کیاہماری لے پالک بیٹی کا حصّہ بنےگا؟مرحوم کی جانب سےصدقہ جاریہ کتنامقررہے؟یعنی ان کی طرف سے صدقہ کرنالازم تو نہیں ہے؟ انہوں نے اپنی زندگی میں ایسا کچھ بھی نہیں کہاتھا، ہم اس لیے پوچھ رہے ہیں کہ کیا میت کی جانب سے صدقہ کرنالازم ہوتاہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مرحوم کے ترکہ کی تقسیم کاطریقہ  یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحوم کی تجہیز وتکفین کے اخراجات نکالنے کے بعد اگر مرحوم پر کوئی قرض ہو، تو اسے کل ترکہ سے ادا کرنے کے بعد اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو، تو اسے ایک تہائی ترکہ سے نافذ کرنے کے بعد باقی کل ترکہ(منقولہ وغیر منقولہ) کو 4حصّوں میں تقسیم کرکے ایک حصّہ مرحوم کی بیوہ کو اور دوحصّے مرحوم کے بھائی کو اور ایک حصّہ مرحوم کی بہن کو ملے گا۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

مرحوم(شوہر):4

بیوہبھائیبہن
121

یعنی فیصدی اعتبارسے٪100فیصد میں سے25فیصد مرحوم کی بیوہ کو اور 50فیصد مرحوم کے بھائی کو اور 25فیصد مرحوم کی ایک بہن کو ملیں گے۔

1: مرحوم کی لے پالک بیٹی کامرحوم کے ترکہ میں  حصّہ  تونہیں ہے، البتہ اگر تمام ورثاء باہمی رضا مندی سے اسے کچھ دیناچاہیں، تو دے سکتے ہیں، یہ ان کی طرف سے تبرع اور احسان ہوگا۔

قرآن کریم میں ہے:

"وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ذَٰلِكُمْ قَوْلُكُم بِأَفْوَاهِكُمْ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ." ﴿الأحزاب: ٤﴾

’’ترجمہ:اور نہیں کیا تمہارے لے پالکوں کو تمہارے بیٹے یہ تمہاری بات ہے اپنے منہ کی اور اللہ کہتا ہے ٹھیک بات اور وہی سمجھاتا ہے راہ۔‘‘

 حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب اس آیت کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں:

’’کہ اسی طرح منہ بولا بیٹا تمہارا بیٹا نہیں بن جاتا ، یعنی دوسرے بیٹوں کے ساتھ نہ وہ میراث میں شریک ہوگا اور نہ حرمت نکاح کے مسائل اس پر عائد ہوں گے کہ بیٹے کی مطلقہ بیوی باپ پر ہمیشہ کے لئے حرام ہے تو متبنی کی بیوی بھی حرام ہو‘‘۔ ( معارف القرآن ص ۸۴ ج ۷ )

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"‌ويستحق ‌الإرث بإحدى خصال ثلاث: 1: بالنسب وهو القرابة، 2: والسبب وهو الزوجية، 3: والولاء."

(كتاب الفرائض، الباب الثاني، ج:6، ص:447، ط: دارالفكر)

2:مرحوم کے جو تین بھائی اور ایک بہن مرحوم کی زندگی ہی میں انتقال کرگئے تھے، ان کا بھی ترکہ میں کوئی حصّہ نہیں۔

الفقہ الاسلامی وأدلتہ میں ہے:

‌"يشترط لثبوت الحق في الميراث ثلاثة شروط: وهي موت المورث، وحياة الوارث، ومعرفة جهة القرابة... 2 -‌‌ حياة الوارث: لا بد أيضا من تحقق حياة الوارث بعد موت المورث، إما حياة حقيقية مستقرة أو إلحاقه بالأحياء تقديرا. الحقيقية: هي الحياة المستقرة الثابتة للإنسان المشاهدة له بعد موت المورث. والتقديرية: هي الحياة الثابتة تقديرا للجنين عند موت المورث، فإذا انفصل حيا حياة مستقرة لوقت يظهر وجوده عند موت المورث، ولو كان حينئذ مضغة أو علقة، ثبت له الحق في الميراث، فيقدر وجود حياته بولادته حيا."

(القسم السادس، الباب السادس، الفصل الرابع، ج:10، ص:7707، ط:دار الفكر)

3: اگر مرحوم نے واقعۃً صدقہ کرنے کی کوئی وصیت نہ کی ہو، تو ورثاء پرترکہ سے صدقہ کرنا ضروری نہیں ہے، البتہ تمام ورثاء تقسیم سے قبل ترکہ میں سےیا کوئی وارث تقسیم کے بعداپنے حصے میں سے مرحوم کے ایصالِ ثواب کے لیے کچھ صرف کرنا چاہے تو کرسکتاہے، مرحوم تک اس کاثواب پہنچ جائے گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(يبدأ من تركة الميت الخالية عن تعلق حق الغير بعينها كالرهن والعبد الجاني بتجهيزه) يعم التكفين (من غير تقتير ولا تبذير) وكله من كل ماله (ثم) تقدم (ديونه التي لها مطالب من جهة العباد ثم) تقدم (وصيته من ثلث ما بقي) بعد تجهيزه وديونه وإنما قدمت في الآية اهتماما لكونها مظنة التفريط (ثم) رابعا بل خامسا (يقسم الباقي) بعد ذلك (بين ورثته)."

(كتاب الفرائض، ج:6، ص:761، ط: سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"‌وإن ‌اتخذ ‌طعاما للفقراء كان حسنا إذا كانت الورثة بالغين، فإن كان في الورثة صغير لم يتخذوا ذلك من التركة، كذا في التتارخانية."

(كتاب الكراهيه، الباب الثاني عشر، ج:5، ص:344، ط: دار الفكر)

’’آپ کے مسائل اور ان کا حل   ‘‘میں ہے:

’’مرنے کے بعد مرحوم کا مال اس کے وارثوں کو فورا منتقل ہو جاتا ہے، اگر تمام وارث بالغ ہوں اور موجود ہوں، ان میں کوئی نا بالغ یا غیر حاضر نہ ہو تو تمام وارث خوشی سے میت کے لئے صدقہ خیرات کر سکتے ہیں، لیکن اگر کچھ وارث نابالغ ہوں تو ان کے حصے میں سے صدقہ و خیرات جائز نہیں، اور اس کا کھانا بھی جائز نہیں۔‘‘

(ج:4، ص:433، ط: مکتبہ لدھیانوی)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144511102014

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں