والد صاحب کا انتقال ہوا ہے والد صاحب کی دوشادیاں تھیں پہلی بیوی کا انتقال ان کی حیا ت میں ہواتھا،پہلی بیوی سے تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں اور ایک بیٹا والد صاحب کی زندگی میں انتقال کرچکے ہیں دوسری بیوی سے والد صاحب کی کوئی اولاد نہیں ہے،لیکن دوسری بیوی کی ایک بیٹی ان کے پہلے شوہر سے موجودہے،والد صاحب کے والدین پہلے انتقال کرچکےہیں۔
1۔مذکورہ ورثاءمیں ترکہ کس طرح تقسیم ہوگاکس کس کو حصہ ملے گا؟
2۔والد صاحب نے ایک دکان اپنی زندگی میں پہلی بیوی اوراان کے چار بیٹوں کے نا م کی تھی البتہ قبضہ والد صاحب کے پاس ہی رہا ،تو کیا دکا ن ترکہ میں شامل ہوگی یا جو بیٹے ہیں ان کو ملےگی؟
3۔والد صاحب کی چھوڑی ہوئی نمازوں کا فدیہ اور زکا ت کی ادائیگی کا کیا حکم ہے؟اور کس مال سےاداکی جائے گی،کیایہ ادا کرنا ورثاء پرلازم ہے؟جب کہ والد صاحب نے اس بارے میں کوئی وصیت نہیں کی ۔
4۔دوسری بیوی کی بیٹی جو پہلے شوہر سے ہے ان کو والد صاحب نے ایک مکان رہائش کےلیے دیا تھاجس کا وہ ان سے کرایہ لیتے تھے، کیا یہ مکان اس بیٹی کی ملکیت شمار ہوگا یاترکہ میں شامل ہوگا
5۔کن لوگوں کےلیے وصیت کرنا جائز ہے اور کتنے مال میں وصیت نافذ ہوتی ہے،اور وارث کے حق میں وصیت نافذہوتی ہے یانہیں ؟
صورت مسئولہ میں والدمرحوم کی میراث کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحوم کے حقوق مقدمہ یعنی تجهیز و تکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد ،اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرض ہو اس کو ادا کرنے کے بعد، اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو اس کو مابقیہ مال کے ایک تہائی میں نافذ کرنے کے بعد باقی کل مال کو 72 حصوں میں تقسیم کر کے مرحوم کی بیوہ کو 9 حصے، ہر ایک بیٹے کو 14 حصے اور ہر ایک بیٹی کو 7 حصے میں گے ۔ جب کہ بیوہ کے پہلے شوہر سے ہونے والی بیٹی کا مرحوم کے ترکہ میں کوئی حصہ نہیں ہے ۔
صورت تقسیم یہ ہے:
میت: والد مرحوم8/ 72
بیوہ | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹی | بیٹی | بیٹی |
1 | 7 | |||||
9 | 14 | 14 | 14 | 7 | 7 | 7 |
فیصد کے حساب سے مرحوم کی بیوہ کو 12.5 فیصد، ہر ایک بیٹے کو 19.44 فیصد اور ایک ہیں کو 9.72 فیصد ملے گا۔
2۔والد مرحوم نے دکان صرف پہلی بیوی اور ان کے چار بیٹوں کے نام کی تھی البتہ قبضہ والد صاحب کے پاس رہا تو اس صورت میں یہ دکان بھی والد صاحب کے ترکہ میں شما رہوکر والد صاحب کے تمام ورثاء میں ان کے شرعی حصص کے مطابق تقسیم ہوگی۔
3۔اگر والد مرحوم نے فدیہ دینے کی وصیت نہیں کی تھی تو شرعاً ورثاء پر ان کی نمازوں اور روزوں کا فدیہ ادا کرنا لازم نہیں ہے،البتہ اگر ورثاء خود باہمی رضامندی سے مرحوم کے ترکہ سے یا کوئی ایک وارث اپنی جانب سےان کے نمازوں اور روزوں کافدیہ ادا کردے ،تو یہ والد کے ساتھ حسن سلوک ہوگا،جس پر اجر وثواب کے مستحق ہوں گے۔
4۔اگر والد مرحوم نے یہ مکان باقاعدہ مذکورہ بیٹی کو گفٹ نہیں کیاتھا صرف رہائش کےلیے دیاتھاتو پھر ترکہ میں شمار ہوگا اگر گفٹ کرکے قبضہ میں دیا تھا تو پھر وہی مالک ہے۔
5۔غیر وارث کےلیے وصیت کرنا جائز ہے،تجہیز تکفین ادائے دین کےبعد باقی ترکہ کی ایک تہائی میں و صیت نافذ ہوتی ہے،دوسرے ورثاء(جو سب عاقل بالغ ہو)کی اجازت کے بغیر وارث کےلیےوصیت نافذ نہیں ہوتی۔
فتاوی ہند یہ میں ہے :
"ولا يتم حكم الهبة إلا مقبوضة ويستوي فيه الأجنبي والولد إذا كان بالغا، هكذا في المحيط."
(کتا ب الھبة،ج4،ص377،ط:رشیدیة)
فتاوی شامی میں ہے:
"(وإن) لم يوص و(تبرع وليه به جاز) إن شاء الله ويكون الثواب للولي اختيار.
(قوله إن شاء الله) قبل المشيئة لا ترجع للجواز بل للقبول كسائر العبادات وليس كذلك، فقد جزم محمد - رحمه الله - في فدية الشيخ الكبير وعلق بالمشيئة فيمن ألحق به كمن أفطر بعذر أو غيره حتى صار فانيا، وكذا من مات وعليه قضاء رمضان وقد أفطر بعذر إلا أنه فرط في القضاء وإنما علق لأن النص لم يرد بهذا كما قاله الأتقاني، وكذا علق في فدية الصلاة لذلك، قال في الفتح والصلاة كالصوم باستحسان المشايخ."
(كتاب الصوم، فصل: في العوارض المبيحة لعدم الصوم،ج:2، ص:425،ط: سعيد )
وفیہ ایضاً:
"(وتجوز بالثلث للأجنبي) عند عدم المانع (وإن لم يجز الوارث ذلك لا الزيادة عليهإلا أن تجيز ورثته بعد موته) ولا تعتبر إجازتهم حال حياته أصلا بل بعد وفاته (وهم كبار) يعني يعتبر كونه وارثه أو غير وارث وقت الموت لا وقت الوصية على العكس إقرار المريض للوارث."
(کتاب الوصایا،ج:6،ص650/ 651،ط:سعید)
وفیہ ایضاً:
"(ولا لوارثه وقاتله مباشرة)لا تسبيبا كما مر (إلا بإجازة ورثته) لقوله عليه الصلاة والسلام «لا وصية لوارث إلا أن يجيزها الورثة» يعني عند وجود وارث آخر كما يفيده آخر الحديث وسنحققه (وهم كبار) عقلاء فلم تجز إجازة صغير ومجنون وإجازة المريض كابتداء وصية ولو أجاز البعض ورد البعض جاز على المجيز بقدر حصته."
(کتاب الوصایا،ج:6،ص:656،ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144608101212
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن